16۔ آپ رحمہ اللہ نہایت ذہین تھے، چار برس کی عمر کی باتیں یاد تھیں، چھ سال کی عمر میں اُن کے والد اپنے ساتھ بٹھا کر مطبوعہ کتاب کو اصلی نسخے کے ساتھ تقابل کرتے، چھ سال کی عمر میں ہی آٹھ ماہ کی مدت میں مکمل قرآن مجید حفظ کر لیا، کوئی بھی متن محض ایک مرتبہ یا کبھی صرف دو مرتبہ پڑھ لینے سے حفظ ہو جاتا، شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ نے انہیں کم عمر ہونے کے باوجود اپنے حلقے میں سینئر طلباء کی صف میں شامل کیا، بڑے طالب علم موجود ہونے کی باوجود شیخ رحمہ اللہ نے انہیں ان کی بنا غلطی عربی قراءت کے سبب اپنا قارئ مقرر کیا، سات سال کی عمر میں ہی اپنے شیخ گرامی کی شروحات اور فتاوی جات کو لکھنا شروع کر دیا، یہ محض کتابت ہی نہ تھی بلکہ آپ اُس عمر میں بھی جو لکھتے اس کے معانی و مطالب سے واقف ہوتے جیسا کہ ان کا بیان ہے، میں نے شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ سے جو کچھ بھی لکھا ہے اسے پوری طرح بحمد للہ سمجھا بھی ہوں۔ (صفحة : ٣٤ – ٣٥)
17۔ ذہانت و فطانت دیکھتے ہوئے، والد گرامی نے وصیت میں لکھا کہ فلاں فلاں کتاب کی آخری جلد میرا بیٹا محمد مکمل کرے گا، آپ نے بیس سال کی عمر سے ہی اپنے والد کے ساتھ فتاوی شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی جمع وتدوین کا کام شروع کر دیا تھا ۔ (صفحة : ٣٦)
18۔ حیرت انگیز طور پر ابن تیمیہ و ابن قیم رحمہما اللہ کے کلام کی معرفت رکھتے تھے، اسی لیے شیخ حماد انصاری رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے اگر سب لوگ جمع ہو جائیں اور ان کے درمیان ابن تیمیہ سانس لیں تو محمد ابن قاسم اُن کے سانس کو بھی پہچان لیں گے ۔ (صفحة : ٣٧)
19۔ آپ رحمہ اللہ نے محض بارہ سال کی عمر میں ابن قیم رحمہ اللہ کی تمام کتب کی اپنے ہاتھ سے تلخیص کی تھی ۔ (صفحة : ٣٧)
20۔ ابھی کلیہ الشریعہ کے طالب علم تھے کہ انہیں معہد میں تدریس سونپ دی گئی، ایک شاگرد کے بقول آپ کا علمی مستوی کئی اساتذہ سے بھی بلند تھا، اس لیے آپ کے لیے حصولِ علم و تدریس دونوں کو جمع کرنا مشکل نہ تھا۔ آپ رحمہ اللہ معہد، کلیہ اور مسجد تینوں جگہوں پر زبانی درس دیا کرتے تھے۔ (صفحة : ٣٧)
21۔ تقوی و خشیت کے پہاڑ تھے، شہرت اور نمود و نمائش کو ناپسند کرتے، سرکاری ڈاکومنٹس کے علاوہ آپ کی کوئی تصویر نہیں ہے۔ (صفحة : ٣٨)
22۔ شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ابن قاسم موحد ہیں۔‘‘ شیخ البانی رحمہ اللہ نے آپ کو ’’فاضل شیخ‘‘ کا لقب دیا ۔ شیخ ابن العثيمين رحمہ اللہ نے آپ کو صاحبِ ورع و تقوی عالم قرار دیا. شیخ بکر ابو زید رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’وہ عابد وزاہد تھے۔‘‘ (صفحة : ٣٨ – ٣٩ – ٤١)
23۔ سفر و حضر میں قرآن مجید کی بکثرت تلاوت کیا کرتے، مسجد میں آذان سے پندرہ منٹ قبل چابیاں لے کر چلے جاتے اور سب سے آخر میں مسجد سے نکلتے۔ (صفحة : ٣٨)
24۔ بہت زیادہ عبادت گزار تھے، فجر سے دو گھنٹے قبل بیدار ہو کر آذانِ فجر تک تہجد ادا کرتے رہتے پھر نمازِ فجر کے لیے مسجد جاتے اور سورج کے بلند ہونے تک نماز کی جگہ پر بیٹھے تلاوت کرتے، پھر دو رکعتیں اشراق ادا کرتے ۔ (صفحة : ٣٩)
25۔ قیام اللیل کبھی نہیں چھوڑتے تھے، چاہے سفر میں ہوتے ۔ اگر رات کو گاڑی ڈرائیو کرنا پڑ جاتی تو گاڑی چلاتے ہوئے ہی قیام اللیل کر لیتے ہیں ۔ (صفحة : ٣٩)
26۔ ہر سال رمضان میں سب کچھ چھوڑ کر مسجد الحرام میں عبادت کے لیے چلے جاتے۔ (صفحة : ٣٩)
27۔ آپ کی اولاد میں سے اگر کوئی نمازِ باجماعت سے پیچھے رہ جاتا تو اس پر شدید غصہ کرتے۔ (صفحة : ٣٩)
28۔ نیک لوگوں سے محبت کرتے تھے چاہے دور کا تعلق ہوتا اور برے کو ناپسند کرتے چاہے قریبی رشتہ دار ہوتا۔ (صفحة : ٤٠)
29۔ والدین کے نہایت فرمانبردار و خدمت گزار تھے، انہیں ملنے لازما جاتے، جب مکہ میں تھے تو خاص طور پر ان کی زیارت کو آیا کرتے۔ جب اُن کے والد گرامی بیمار ہوئے تو انہیں بیرون ملک علاج کے لیے لے کر گئے اور کئی ماہ ان کے پاس رہے۔ (صفحة : ٤٠)
30۔ آپ رحمہ اللہ کو کبھی جھوٹ بولتے نہیں دیکھا گیا اور نہ کبھی کسی کی غیبت کرتے  سنا گیا۔ (صفحة : ٤١)
(جاری ہے )

 حافظ محمد طاھر