31۔ غیر ضروری باتیں سننے سے بچتے، اواخر عمر میں سماعت کچھ کمزور ہو گئی تو چیک اَپ کا مشورہ دیا گیا، فرمانے لگے : ’’لوگوں کی اکثر باتیں سننے کی مجھے ویسے بھی ضرورت نہیں۔‘‘ (صفحة : ٤١)
32۔ حصولِ علم اور مطالعۂ وتالیف پر نہایت حریص تھے، عمر کے آخری حصے میں نظر کمزور ہو گئی تو حروف بڑا کرنے والا عدسہ استعمال کرتے۔ (صفحة : ٤٢)
33۔ کئی کئی گھنٹے مطالعہ کرتے رہتے، خود بیان کرتے ہیں کہ میں نے نمازِ عشاء ادا کر کے شیخ الاسلام رحمہ اللہ کی کتاب ’’منہاج السنہ‘‘ کا مطالعہ شروع کیا، اس قدر مگن رہا کہ آذانِ فجر ہونے تک کچھ پتا نہیں چلا۔ (صفحة : ٤٢)
34۔ لوگوں کے مال سے اپنے آپ کو پاک رکھتے، آپ کے بیٹے نے ایک دن مسواک دی تو فرمانے لگے اگر آپ کے علاوہ کوئی دوسرا دیتا تو میں کبھی نہ لیتا۔ (صفحة : ٤٢)
35۔ نہایت حیاء والے اور وضع دار تھے، شیخ عبد المحسن حفظہ اللہ فرماتے ہیں : ’’میں نے والد گرامی کو کبھی گھر میں بھی ننگے سر نہیں دیکھا۔ حج و عمرہ کے احرام کے علاوہ میں نے آپ کے سر کے بال بھی کبھی نہیں دیکھے۔‘‘ (صفحة : ٤٣)
36۔ جو کوئی نصیحت کرتا قبول کرتے۔ شیخ عبد المحسن حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ رات کو ایک گھنٹہ قیام کیا کرتے تھے، میں نے عرض کی کہ گھنٹہ تھوڑا ہے تو میں نے اس کے بعد انہیں دو گھنٹے قیام کرتے دیکھا۔ میں نے مشورہ دیا کہ اللہ کے لیے کچھ وقف کر دیں تو ایک بلڈنگ فقراء کے لیے وقف کر دی۔ (صفحة : ٤٣)
37۔ لکھنے پڑھنے کی رفتار نہایت تیز تھی، مشکل سے مشکل مخطوطات پڑھ لیا کرتے تھے، پرانے آلاتِ طباعت کے مطابق مسودہ نظر ثانی کے لیے آتا جس پر الٹا لکھا ہوتا تھا تو اسے بآسانی پڑھ لیا کرتے۔ (صفحة : ٤٤)
38۔ آپ رحمہ اللہ نے اپنے قلم سے اچھا خاصا ذخیرہ تحریر کیا جن کی مختصر تفصیل یہ ہے؛
ا۔ شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کے دروس لکھے جو کہ ایک ہزار رجسٹرز پر تیس ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل تھے ۔
ب۔ شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کے فتاوی و رسائل جمع کیے جو تیرہ جلدوں میں ہیں۔
ج۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا فتاوی جو کہ سینتیس جلدوں پر مشتمل ہے، اسے لکھا۔
د۔ فتاوی ابن تیمیہ کا پانچ جلدوں پر مشتمل استدراک ایک سے زائد مرتبہ اپنے ہاتھ لکھا ۔
ھ۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ کی تمام کتب کی کئی جلدوں میں تلخیص تیار کی ۔ (صفحة : ٤٥)
39۔ آپ رحمہ اللہ نے اپنے والد کے ساتھ مل کر چالیس سال کی مدت میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا فتاوی جمع کیا۔
ا۔ فتاوی شیخ الاسلام کے مخطوطات جمع کرنے کے لیے شام، عراق، مصر اور پیرس کا سفر کیا۔
ب۔ بیان کرتے ہیں کہ مجھے شیخ الاسلام رحمہ اللہ کے ہاتھ سے لکھے ساڑھے آٹھ سو سے زائد ایسے صفحات ملے جو مجھ سے قبل کسی کو نہیں ملے۔
ج۔ آپ رحمہ اللہ نے اپنے اس سفر میں مخطوطات کی بارہ ہزار جلدوں میں سے نو سو جلدوں کا مطالعہ کیا۔
د۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے مکتبہ ظاہریہ میں آپ کو بیس سال کی عمر میں سینکڑوں مخطوطات و مجلدات کا مطالعہ کرتے دیکھا تو آپ کی اس محنت کی ستائش کی۔
ھ۔ ’’المستدرك على مجموع الفتاوى‘‘ کو جمع کرنے کے لیے تیرہ سال کا عرصہ صرف کیا اور اسے جمع کرنے کے لیے سو سے زائد جلدوں کا مطالعہ کیا۔ (صفحة : ٤٧)
40۔ تیرہ سال کے طویل عرصے کی محنت سے شیخ محمد بن ابراہیم آل شیخ رحمہ اللہ کے فتاوی و رسائل جمع کیے۔ (صفحة : ٥٠)
41۔ موجودہ مفتی المملکہ شیخ عبد العزيز بن عبد اللہ آل شيخ حفظہ اللہ آپ کے معروف شاگردوں میں سے ہیں۔ (صفحة : ٥٢)
42۔ آپ رحمہ اللہ کا اپنے بیٹے، شیخ عبد المحسن ابن القاسم حفظہ اللہ امام و خطیب مسجد نبوی سے بڑا گہرا اور قلبی لگاؤ تھا۔ وہ خود بیان کرتے ہیں : ’’آپ رحمہ اللہ گھر کے مالی معاملات میرے سپرد کر دیتے جبکہ میری عمر صرف دس سال تھی، اپنے کئی کاموں کے لیے مشایخ وغیرہ کے پاس بھیجا کرتے، علماء کے دروس میں شریک ہوتا تو بہت خوش ہوتے، طلوعِ آفتاب کے بعد جب تک میں شیخ عبد العزیز ابن باز رحمہ اللہ کے درس سے واپس نہ آ جاتا لائبریری میں نہ جاتے اور مجھ سے استفسار کیا کرتے کہ شیخ نے درس میں کیا ذکر کیا ہے؟ میرے ساتھ بہت مانوس تھے۔ جب تبوک کے علاقے بَدْع کا قاضی مقرر ہونے پر میں نے رخت سفر باندھا تو بہت زیادہ روئے، جب بھی بَدع یا مدینہ منورہ کے لیے سفر کرتا تو گھر کے دروازے تک چھوڑنے آتے، میں زیادہ عرصہ حاضر نہ ہو سکتا تو خود ملنے چلے آتے۔‘‘ (صفحة : ٥٥ – ٥٦)
43۔ میں ابھی بارہ سال کا تھا کہ مجھے رات کے قیام کا حکم دیتے اور کہا کرتے کہ بعض اہلِ علم کے ہاں حافظِ قرآن کے لیے قیام اللیل واجب ہے۔ (صفحة : ٥٥)
44۔ جب میں مسجد نبوی کا امام و خطیب مقرر ہوا تو مدینہ کی طرف الوداع کرتے وقت فرمایا: ’’جب لوگوں کو نماز پڑھاؤ تو اُس کا دھیان رکھنا جو تمہارے اوپر ہے، یعنی رب تعالی۔ اور اُن کی پیروی کرنا جو تمہارے بائیں طرف ہیں یعنی نبی کریم ﷺ، کیوں کہ آپ ﷺ کی قبرِ مبارک مسجد نبوی کے محراب سے بائیں طرف ہے۔‘‘ (صفحة : ٥٦)
45۔ آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں نے بیت اللہ میں ملتزم کے پاس اللہ تعالی سے دعا کی تھی کہ مجھے نیک بیٹا دے جو میرے لیے نفع مند ثابت ہو۔ (صفحة : ٥٩) (اللہ تعالی نے دعا قبول فرمائی اور عالم با عمل، والد کے علوم کا پاسبان اور مسجد نبوی کا امام و خطیب بیٹا عطا فرمایا۔) ختم شد۔

 حافظ محمد طاہر