برادرم دوکتور رضوان اسد خان صاحب نے کل پرسوں ایک پوسٹ لگائی تھی کہ اگر آپ کی بیٹی کسی جگہ رشتہ کرانے پر ضد کرے ، جبکہ آپ کی تفتیش کے مطابق وہ لڑکا بیٹی کے لائق نہ ہو، لیکن بیٹی اَڑ جائے اور ہر حال میں اسی سے شادی کی ضد کرے،تو آپ کیا کریں گے؟
اس سوال کا بندہ کے پاس جواب یہ ہے کہ پہلی بات تو یہ کہ جب اولاد کی عمر ایسی ہوجائے کہ وہ بلوغت کے قریب ہوجائیں اور شادی کی عمر یا ان معاملات کو سمجھنے لگ جائیں، تب ان کو سمجھانا چاہیئے۔ اس عمر میں کرش اور محبت کا عجب سا سنگم بنتا ہے تو اولاد کو اس مرحلہ پر سمجھانا چاہیئے کہ ٹین ایج میں محبت نہیں ہوا کرتی، کرش اور پسندیدگی ہوتی ہے اور اس مرحلے میں ان امور میں داخل ہونا آپ کے مستقبل کے لئے کس قدر تباہ کن ہے۔
اسکے بعد کا دور آتا ہے شادی اور نکاح کا، تو اب بچوں کو سمجھانا چاہیئے کہ آپ کے والدین کو آپ سے محبت ہے اور وہ اسی محبت کی وجہ سے آپ کے لئے بہترین انتخاب کریں گے، اور آپ کو بھی اپنی طبیعت اور سوچ ایسی بنالینی چاہیئے کہ والدین کی پسند ہی اپنی پسند لگے۔ تاہم اولاد کو صراحتاً نہ بھی ہو، تو اشاروں کنایوں میں یہ بھی صاف بتادینا چاہیئے کہ اگر آپ حضرات کی پسند کوئی اور ہوئی تو ہمیں اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ ہاں پسند میں مذکورہ امور پر بچوں کا ذہن کھولنا چاہیئے کہ جس سے شادی ہونی ہے، وہ کیسا ہونا چاہیئے یا کیسی ہونی چاہیئے؟۔شادی، نکاح کیوں کیا جاتاہے ؟ کس مقصد کی خاطر کیاجاتا ہے؟ نیز شادی کے لئے لڑکی یالڑکے میں کیا صفات ہونی چاہیئے؟ ان باتوں کے بارےمیں اولاد کو اس وقت بتانے کی ضرورت پیدا ہونے لگ جاتی ہے۔
تاکہ اگر اسے کسی سے اس وقت محبت ہونے لگے تو وہ ابتداء میں ہی، عقل کے زائل ہونے سے پہلے ( یعنی محبت کی آگ کے بھڑکنے سے پہلے ) ان باتوں پر اس بندے کو جانچ بھی سکے کہ یہ ساتھ میں چل بھی سکے گا؟ عزت، احترام اور وقار بھی دے سکے گا یا نہیں؟ نیز تعلیمی بیک گراؤنڈ ، خاندانی بیک گراؤنڈ کی اہمیت بھی بچوں کو سمجھانی چاہیئے تاکہ بچے کہیں پھنسنے سے پہلے حتیٰ المقدور ان بنیادوں پر اپنی پسند کو جانچ سکیں، پھر وہ کوئی معقول فیصلہ کرسکیں۔

یاد رہے کہ پہلی نظر کی محبت کوئی نہیں ہوتی، محبت ہمیشہ آہستہ آہستہ بڑھتی ہے، توجہ سے پانی پاتی ہے اور پھر کرتے کرتے دل میں جگہ بناتی ہے۔۔ تو اگر کوئی فرد بچی کو پسند آنے لگے تو اس کے پاس شروع میں ہی اس قدر سمجھ بوجھ ہونی چاہیئے کہ وہ پرکھ سکے کہ یہ بندہ میرے ساتھ اور میں اس کے ساتھ چل بھی سکتی ہوں کہ نہیں؟
پھر والدین کے پاس اگر بچی کا ایساکیس آجائے تو فوراً سے ری ایکشن نہ دے۔۔ پہلے تو یہ دیکھے کہ بچی اس کے ساتھ کس قدر انٹرسٹڈ ہے، اگر تو سمجھانے سے سمجھ جاتی ہےتو فبہا، ضرور سمجھانا چاہیئے ۔ اونچ نیچ ، زمانے کے احوال، نامعلوم فیملیز میں نکاح کے مسائل… جن کی بہت ساری مثالیں ہمارے آگے پیچھے بکھری پڑی رہتی ہیں، پسند کی شادی کے بکثرت ٹوٹنے کے احوال۔۔۔ یہ اور ان جیسی چیزیں ایسی ہیں، جو بچی کے ذہن کو مثبت طور پر بدل سکتی ہیں۔ تاہم اگر وہ پھر بھی اپنی بات پر جمی رہے ، تو اس مرحلہ پر لڑکے کے بارےمیں بازیافت اور تفتیش کرنی چاہیئے۔۔ اگر تو خاندان اور رشتہ مناسب ہے، تب تو بسم اللہ کرے اور بات آگے بڑھائے، لیکن اسکے لئے پہل لڑکے والوں سے ہی کروانی چاہیئے۔۔ تاہم اگر لڑکا مناسب حال نہ لگے ( اور یہی پر ہمارا بنیادی سوال کھڑا ہے ) تو اب کیا کرے؟
یہاں پر ایک واری پھر بچی کو بتائے، بغیر جوڑ کے رشتوں کے مسائل سے باخبر کرے، تاہم اگر بیٹی اڑی ہوئی ہے، تو پھر بسم اللہ کرکے بات آگے بڑھائے۔
کئی ساری چیزوں کو سامنے رکھ یہ مشورہ دیرہا ہوں کیونکہ یہ عمر ایسی ہوتی ہے جس میں بچے ہر حال میں اپنی ہی ضد پوری کرانے پر زور دیتے ہیں اور اگر ایسا نہ کیا جائے تو بہت مرتبہ بدترین نتائج سامنے آتے ہیں، مثلاً خدانخواستہ بیٹی خودکشی کرے، گھر سے بھاگ جائے۔۔ بغیر والدین کی مرضی کے شادی کرکے سسرال کے گھر جائے گی تو وہ بھی ساری عمر ہلکا سمجھ کر طعنے دے دے کر ماریں گے بےچاری کو۔ والدین کی بیک اپ بہت اہم چیزہوتی ہے۔ اگر بیٹی نے ضد میں آکر ایسی غلطی کرلی، تو بہت کم ہی چانسز رہتے ہیں کہ وہ ایک مطمئن اور خوش گوار زندگی گذار سکے۔
اب والدین کو چاہیئے کہ بیٹی کو سمجھائے کہ ٹھیک ہے ہماری مان تو نہیں رہی ہو ، لیکن ہماری سمجھ میں مطابق یہ رشتہ آپ کو سوٹ نہیں کرتا، اس وجہ سے اگر وہاں کچھ نامناسب سلوک ہو تو کوشش کرنا بیٹی اور اسے نباہنا، تاکہ چھوٹی باتوں پر رشتہ خراب نہ ہو۔ اور خود بھی معمول سے بڑھ کر بیٹی کو سپورٹ بھی کرے ، تاکہ اگر آپ کا خدشہ درست ثابت ہو، تو بھی بیٹی کو وہاں پر کوئی نقصان نہ ہو۔
تاہم بیٹی کو یہ تحفظ بھی پورا دیا جائے کہ اگرخدانخواستہ رشتہ کسی صورت چل نہیں رہا اور آپ قربانی بھی دیرہی ، پھر بھی حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے، تو یاد رکھنا کہ ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں ، آپ کی بیک پر کھڑے ہیں۔ ہماری ساری توانائیاں آپ کے لئے صرف ہوں گی۔ یہ گھر اور یہاں کی ہر چیز پہلے کی طرح آپ کی ہی رہے گی۔
مختصراً بندہ کا سمجھنا یہ ہے ہمت کرلینی چاہیئے، اگر تو رشتہ عافیت سے چل جاتا ہے تو کیاہی بات ہے اور یہی مقصود بھی ہے، لیکن اگر رشتہ نہیں بھی چل جاتا تو بیٹی کو کم ازکم ایک سبق تو حاصل ہوگا کہ شادی، گھر گرہستی اور عشق معشوقی میں بڑا فرق ہے اور محبت وغیرہ کے یہ کھیل اکثر ناپائیدار ہی ثابت ہوتے ہیں الا ماشاء اللہ ۔

علی عمران