( ڈی این اے ٹیسٹ کے حوالے سے ایک سوالنامہ اور اس کا مختصر جواب)

میرے لیے یہ باعث اعزاز ہے کہ میں آپ کو یہ خط مع سوالنامہ کے ارسال کر رہی ہوں جو میرے PhD کے مقالہ کی تکمیل میں معاون ثابت ہو گا جس کا عنوان یہ ہے۔ “ڈی۔ این۔اے(DNA) ٹیسٹ کی شہادت کی شرعی حیثیت” اس ضمن میں آپ کی قیمتی آراء اور تجزیہ مقالہ کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس معاونت کے لیے جس میں آپ کی نہایت شکر گزار ہوں گی۔

طالب خیر: عظمی صفات (اسسٹنٹ پروفیسر / پی۔ ایچ۔ ڈی سکالر) شعبہ عربی و علوم اسلامیہ جی سی یونیورسٹی لاہور۔

سوال نمبر ۱۔ اگر شوہر پیدا ہونے والے بچے کے نسب کی نفی کرے تو اس صورت میں لعان کرایا جانا چاہیے یا نومولود کا ڈی۔ این اے ٹیسٹ کرایا جائے تا کہ عورت اگر مطالبہ کرے تو اس سے تہمت کو دور کیا جاسکے۔ شریعت کا اس بارے میں کیا حکم ہے؟
سوال نمبر 2۔ ہسپتال میں اگر نو مولود بچوں کی شناخت کا مسئلہ ہو جائے تو ایسی صورت میں ٹیسٹ کی ججیت کی کیا صورت ہو گی ؟ یا جنگ کی حالت میں بچوں کی شناخت کا مسئلہ ہو جائے تو کیا اس ٹیسٹ سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے ؟
سوال نمبر 3- لاوارث لاشوں کی شناخت کے لیے ایسے ٹیسٹ کی قانونی و شرعی حیثیت کیا ہو گی ؟
سوال نمبر 4۔ اگر ایک آدمی نے لقیط بچہ (گمشدہ بچہ) کو اپنے ساتھ جوڑ لیا اور پھر اسکے گھر والے بھی مل گئے اور ان کے پاس دلائل بھی ہوں تو ایسی صورت میں حقیقی باپ کی طرف بچے کو منسوب کرنے کے لیے اس ٹیسٹ کو استعمال کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟
سوال نمبر 5 – زنابالجبر اور زنا رضا کے ثبوت میں اس ٹیسٹ کی شرعی حیثیت کیا ہو گی ؟
سوال نمبر 6- حدود قصاص (قتل) میں اس ٹیسٹ کی شرعی حیثیت کیا ہو گی؟

عظمی صفات             

(اسسٹنٹ پروفیسر / پی۔ ایچ۔ ڈی سکالر)

الجواب بعون الوهاب وهو الموفق للصواب
الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على سيد الانبياء والمرسلين وعلى آله واصحابه اجمعين، اما بعد!

دین اسلام نے سب کے حقوق کا مکمل تحفظ کیا ہے۔ انسان کے حقوق میں سے ایک حق اس کے نسب کا تحفظ بھی ہے۔ اگر کوئی جان بوجھ کر اپنا نسب تبدیل کرے تو اس کے بارے میں سخت وعید ہے۔ فرمان نبوی ﷺ ہے۔

” من ادعى إلى غير أبيه وهو يعلم أنه غير أبيه فالجنة عليه حرام۔

ترجمہ: جو جان بوجھ کر اپنی نسبت اپنے والد کے علاوہ کسی اور کی طرف کرے تو اس پر جنت حرام ہے۔ ( صحیح بخاری : 6285)
شریعت اسلامیہ نے نسب کی حفاظت کے لیے زنا اور قذف کو حرام قرار دیتے ہوئے لعان ، عدت اور استبرائے رحم کو شریعت کا حصہ قرار دیا ہے۔ اور محض ظن و تخمین اور شبہ کی بنا پر انکار نسب کو محسن نہیں سمجھا۔صحیح بخاری کی روایت کے مطابق بنو فزارہ کے ایک آدمی نے کہا کہ میری بیوی سے سیاہ بچہ پیدا ہوا ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے پوچھا کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں؟ اس نے اثبات میں جواب دیا تو آپ نے پوچھا ان کا رنگ کیا ہے؟ وہ عرض پرداز ہوا کہ سرخ۔ تو اس سے پوچھا گیا کہ ان سرخ اونٹوں میں کوئی سیاہ بھی ہے؟ اس نے کیا جی ہاں تو فرمایا یہ کیسے مکن ہوا؟ اس نے کہا شاید یہ کسی رگ کی وجہ سے۔ تو آپ نے فرمایا شاید اس بچے نے بھی کوئی رگ کھینچی ہو ۔ ( صحیح بخاری: 5305)

اس روایت سے معلوم ہوا کہ انکارِ نسب کے لیے شریعت نے جو قواعد و ضوابط مقرر کیے ہیں۔ انہیں کو بنیادی حیثیت حاصل ہے بلکہ بسا اوقات قرائن کی موجودگی میں بھی اثبات نسب کو ہی ترجیح دی گئی ہے۔ جیسا کہ ابن زمعہ کے معاملے میں آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے اس میں عتبہ کی شباہت دیکھنے کے باوجود یہی فرمایا

” الولد للفراش وللعاهر الحجر “

صیح بخاری: 6368)

ترجمہ: بچہ اسی کا ہے جس کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔ اور زانی کے لیے پتھر ہیں۔ ایسے ہی حدیث لعان میں بھی بچہ مکروہ صفات پر آنے کے باوجود کسی قسم کی حد جاری نہ گئی تھی ۔ (سنن النسائی: 3470) صحیح ۔

ڈی این اے ٹیسٹ میڈیکل سائنس کی نئی تحقیق کا نتیجہ ہے۔ جس سے اہل مغرب عرصہ دراز سے استفادہ کر رہے ہیں۔ امریکہ کے سابق صدر کلنٹن کے جب مونیکا سے مراسم ثابت کرنا مقصود تھے تو مونیکا کے بلاؤزر سے بل کلنٹن کے جرثومے اکٹھے کیے گئے ۔ تو ان پر یہ الزام ثابت ہو گیا۔ ( اسلام اور جدید میڈیکل سائنٹس ص 118 ) پھر بعد میں بل کلنٹن نے اس جرم کا بچشمِ نم اقرار بھی کیا تھا۔ پاکستان میں سب سے پہلے ایک امریکہ پلٹ پاکستانی نے اپنی بیوی کے کردار پر شک کی بنیاد پر اپنی بچی کو اپنے ساتھ امریکہ لے جا کر اس کا ڈی این اے ٹیسٹ کروایا۔ جب بچی کا ڈی این اے اس سے میچ نہیں کیا تو جس پر شک تھا واپسی پر اس پر زنا کا پرچہ کروایا پھر کراچی میں “وال سٹریٹ ” کے امریکی صحافی کے قتل میں اس ٹیسٹ کو بنیاد بنایا گیا۔ ڈاکٹر شازیہ کیس میں بھی اس ٹیسٹ کو بڑی اہمیت دی گئی۔ (دیکھیں: اسلام اور جدید میڈیکل سائنس ص 114 )
ذیل میں ڈی این اے ٹیسٹ سے استفادہ کی شرعی حیثیت کو دو حصوں میں تقسیم کر کے وضاحت کی گئی ہے۔
ڈی این اے ٹیسٹ کا درج ذیل حالات میں استعمال درست ہو گا۔
1 ۔ ایک مجہول النسب بچہ یا لقیط کے نسب میں ایک سے زائد دعویدار ہوں۔ ایسی صورت میں یہ ٹیسٹ لائق قبول ہوگا۔
2۔ ہسپتال میں نومولود بچے آپس میں مل جائیں اور معاملہ گرم ہو جائے تو ایسی صورت میں یہ ٹیسٹ قابل قبول ہوگا۔

3۔ ایک آدمی نے ایک لاوارث بچہ کو اپنے سے جوڑ لیا۔ پھر اس کے گھر والوں کا پتا چل گیا اور ان کے پاس دلائل ہیں۔ اس صورت میں بھی حقیقی باپ کی طرف بچے کو منسوب کرنے کے لیے اس ٹیسٹ کا سہارا لیا جائے گا۔

4: شادی کے بعد چھ ماہ سے کم مدت میں پیدا ہونے والے بچے میں شک ہو گیا۔

5: حادثات یا جنگ میں بچے مخلوط ہو جائیں اور یقین کے ساتھ ان کے آباء کا پتا نہ چل سکے۔

6۔ لعان سے باز رکھنے کے لیے ۔ اس کی صورت یہ ہوگی کہ شوہر نے کسی شک کی بنیاد پر بچے کے نسب کے لیے بیوی سے لعان کا عزم مصمم کر لیا ہے۔ اگر ٹیسٹ سے مشکوک بچے کا نسب ثابت ہو جائے تو اسی پر بس کیا جائے گا۔ ورنہ بصورت دیگر لعان ہوگا۔ (الأضواء 42 ص – 135 مضمون نگار : عبد الباسط خان )

ملاحظه: اگر ڈی این اے ٹیسٹ میں بچے کا نسب ثابت ہو بھی جائے تو یہ بات مکرر سوچی جائے کہ مرد کے مطمئن ہونے کے بعد کیا عورت اپنی ذہنی حالت پر برقرار رہ سکے گی؟ اور کیا وہ اس خوشی سے جی سکے گی۔ جو اس ٹیسٹ سے پہلے تھی ؟
بہر کیف مزاج شریعت یہی معلوم ہوتا ہے کہ اثبات نسبت کے لیے بعض صورتوں میں اس سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ مگر انکار نسب کے لیے اس سے گریز کیا جائے ۔ علامہ ابن قدامہ فرماتے ہیں۔ “النسب يحتاط لاثباته ويثبت بأدنى دليل ويلزم التشديد في نفیه”
ترجمہ: ثبوت نسب میں احتیاط برتی جائے اور ذراسی دلیل ملنے سے نسب ثابت کیا جائے گا۔ مگر انکار نسب میں شدت اختیار کرنا ضروری ہے۔ (المغنی: 6/127)

(ب) درج ذیل صورتوں میں ڈی این ٹیسٹ کا استعمال درست نہ ہوگا۔
حدود و قصاص میں اس ٹیسٹ کی شرعی حیثیت
1 – حدود و قصاص میں اس ٹیسٹ کو بطور قرینہ تو پیش کیا جاسکتا ہے یا پھر دوران تحقیق ملزم سے اقرار کروانے کے لیے بھی اس کا سہارا درست ہوگا۔ مگر اس کی بنیاد پر حدود و قصاص کے فیصلے کرنا صحیح نہیں ہوگا۔ حدود و قصاص کے لیے جو شرعی ضابطے مقرر ہیں۔ یعنی ملزم کا اقرار یا گواہوں کا گواہی دینا۔ وہی معتبر ہوں گے۔
فرمان نبوی ہے ہے ۔ ” ادرؤوا الحدود عن المسلمين ما استطعتم فان الامام ان يخطئ فى العفو خير من أن يخطئ في العقوبة “ ( ترمذی: 1424) ترجمہ: جہاں تک ممکن ہو سکے مسلمانوں سے حدود ہٹاؤ امام کا معاف کرنے میں غلطی زیادہ بہتر ہے کہ وہ سزا دینے میں غلطی کرے۔ نوٹ: یہ حدیث مرفوعا ضعیف ہے مگر کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے موقوفا صحیح منقول ہے۔ (دیکھیں نیل الاوطار 13/270 )

2- زنابالجبر میں ڈی این اے ٹیسٹ: زنا بالجبر میں ڈی این اے ٹیسٹ معتبر معلوم نہیں ہوتا۔ کیونکہ ایسے تو کوئی بھی زنا بالرضا کر کے زنا بالجبر کا دعوی دائر کر سکتا ہے۔ ہاں دیگر قرائن سے اس کی مدد لی جاسکتی ہے۔ جیسے دیکھا جائے کیا مزاحمت کا امکان موجود ہے؟ اور مدعی کے جسم پر باندھنے یا مارنے پیٹنے کے نشانات ، کپڑوں کا پھٹنا، بیہوشی کی ادویات یا نشہ آور اشیاء کا استعمال یا اس کے سانحے کے بعد مدعی یا مدعیہ کا ذہنی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونا۔

یاد رہے کہ یوسف علیہ السلام کے قصے میں کوئی گواہ نہ تھا۔ تو قرینے سے ہی ان کی پاک دامنی ثابت ہوئی تھی۔

3: زنا بالرضا میں ڈی این اے ٹیسٹ

زنا بالرضا میں اسے قرینہ کے طور پر تو پیش کیا جا سکتا ہے مگر فیصلے کا دارومدار اس ٹیسٹ پر ہونا مناسب نہیں۔ ہاں دیگر قرائن سے اس کی مدد لی جاسکتی ہے۔ جیسے دیکھا جائے کیا دونوں کا آپس میں کوئی رابطہ یا ملاقات کا خصوصاً تنہائی میں ملاقات کا امکان تو نہیں یا فون کال اور میسجز کے ریکارڈ حاصل کر کے ان کے تعلق کی
نوعیت کو جانچا جائے۔
نوٹ: ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے پاکستان میں موجود طبی آلات اور مشینوں کے بارے میں بھی تسلی کی جائے کہ آیا یہ آلات اس ٹیسٹ کے لیے کارآمد اور قابل اعتماد میں بھی یا نہیں۔ نیز ٹیسٹ کرنے والا بھی انسان ہے۔ اس سے غلطی کا صدور بھی ممکن ہے۔ اور مالی بد عنوانی کا امکان بھی موجود ہے۔

ڈی این اے ٹیسٹ کرنے سے اگر کسی کا صحیح حق سلب ہو رہا ہو تو احتیاط ضروری ہے۔ نیز روز نامہ امت کراچی کی رپورٹ کے مطابق اس ٹیسٹ کی قیمت اکیس ہزار کے لگ بھگ ہے۔ گورنمنٹ نے زنا بالجبر کے کیسوں کی تفشیش کے لیے یہ رقم پولیس کے محکمے کے لیے مختص کی ہے۔ مگر پولیس والوں کا کہنا ہےکہ یہ رقم ملتی نہیں ہے۔ اور ان کا مظلومین سے مطالبہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی مدد آپ کے تحت یہ ٹیسٹ کرائیں۔

یہاں بھی مالی بدعنوانی کا اندیشہ نظر آرہا ہے۔ (روز نامہ امت کراچی، ص :3، 31 جولائی 2018 بروز منگل) تو ڈر ہے کہیں پیسے ہڑپ کرنے کے چکر میں جھوٹی رپورٹیں نہ بنوائی جاتی ہوں ۔ هذا ما عندنا والله اعلم بالصواب.