سوال (394)

جو لوگ شرک کرنے والی جماعتوں کو ووٹ ڈالتے ہیں۔ ان کے بارے میں کیا حکم ہیں؟

جواب

ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

“وَلَا تَعَاوَنُوۡا عَلَى الۡاِثۡمِ وَالۡعُدۡوَانِ” [سورة المائدة : 02]

’’گناہ اور زیادتی پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو‘‘۔
شرک کا دست و بازو بننا بھی شرک کو فروغ دینے کے مترادف ہے ، لہذا جائز نہیں ہے ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

ووٹ وغیرہ کے حوالے سے دو تین سوالات آئے ہیں، جس پر مشایخ کرام نے مختصرا تبصرہ فرمایا ہے.
ذیل میں ایک تحریر جو فیس بک پر ایک صاحب علم کی طرف سے دیکھنے کو ملی، اسے یہاں نقل کر دیتا ہوں، مقصد کسی پر تنقید نہیں ہے.. بس ایک نقطہ نظر کی وضاحت ہے، ملاحظہ فرمائیں:
علماء کا حکمرانوں کے ساتھ تعلق ناصحانہ اور مصلحانہ ہونا چاہیے، مسابقت یا شراکت کا نہیں۔ علماء جب اہل دنیا کی باہمی رسہ کشی میں ان کے ساتھ شامل ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اہل دنیا کی نظروں سے ان کا وقار ختم کر دیتا ہے۔ وقار چلا جائے تو زبان کی تاثیر بھی جاتی رہتی ہے۔ ایسے بے حیثیت لوگ معاشرے کو بدلنا تو کجا، چند آدمیوں کی زندگی بھی نہیں بدل سکتے۔
دیکھیے، انبیاء کرام علیہم السلام میں سے کسی نے اپنی قوم سے اقتدار یا سرداری کا مطالبہ نہیں کیا۔ اگر کبھی قوم کے دلوں میں شبہہ پیدا بھی ہوا کہ شاید یہ دنیا کا خواہش مند ہے تو نبی نے فورا اس بات کی تردید کی اور بتایا کہ مجھے اس کام کے عوض تم سے کچھ بھی مطلوب نہیں ہے۔ میں تمہارے ساتھ بے لوث اور بے غرض ہوں اور تمہارا ہی بھلا چاہتا ہوں۔

{انی لکم ناصح امین}

بیشتر انبیاء کی قومیں مشرک اور کفار تھیں جنہیں موحد اور مسلمان بنانا انبیاء کا مشن تھا، ہمارے یہاں سب حکمران مسلمان ہیں، اگرچہ بے عمل اور دین سے دور ہیں۔ انبیاء کرام علیہم السلام نے مشرکوں کو توحید کا سبق پڑھانے کے لیے بھی اقتدار کی خواہش نہیں کی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بے عمل مسلمانوں میں جوش عمل پیدا کرنے کے لیے بھی اقتدار لازم ہے۔ اقتدار کے بغیر ان میں عمل کی روح نہیں پھونکی جا سکتی اور حکومت کے بغیر ان کے احوال کی اصلاح ممکن نہیں۔
سب سے بڑا شبہہ ذہنوں میں یہ بٹھا دیا گیا ہے کہ اس میدان کو بے دینوں کے لیے خالی بھی تو نہیں چھوڑا جا سکتا۔ سوال یہ ہے کہ اس میدان میں دین داروں کے ورود کا کیا یہی ایک طریقہ رہ گیا ہے کہ علماء کرام خالص دین کے نام پر سادہ لوح مسلمانوں کو اپنے ارد گرد جمع کریں اور پھر انہیں اپنی خالص دنیا چمکانے کے لیے استعمال میں لائیں۔ حتی کہ اصلاح عقائد، دعوت و تبلیغ اور علم دین کی نشر و اشاعت جیسے اہم کاموں کو پس پشت ڈال کر، اپنی نگرانی میں چلنے والی دینی جماعت کے تمام وسائل اور توانائیاں سیاست کے لاحاصل معرکے میں جھونک دیں؟

فضیلۃ العالم پروفیسر محمد سرور حفظہ اللہ