سوال (1310)

اگر شوہر ایسی کمائی کر رہا ہو جو مشکوک ہے یا حرام ہے تو بیوی بچوں کو کیا کرنا چاہیے سمجھانے کے باوجود وہ نہیں سمجھتا ہے ؟

جواب

بیوی بچوں کے لیے وہ کمائی جائز ہے ، کیونکہ حرام اس کے لیے ہےجو کما رہا ہے ۔

فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ

شیخ محترم نے صحیح فرمایا ہے ، البتہ سمجھانا یہ سب کی ذمے داری ہے ، بھرپور اس حوالے سے تحریک چلانی چاہیے ، یہ ذمے داری ہے تاکہ وہ اس وبال سے نکلیں ، جب بچے بلوغت کو پہنچ جائیں تو اور ذمے داریاں بڑھ جاتی ہیں ، اس طرح محدود دائرے میں بیوی کی بھی ذمے داریاں ہیں ،اس حوالے سے اصلاح کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے ، گھر کے سربراہ کو اس وبال سے نکالنا چاہیے ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

اس حوالے سے دو باتیں ملحوظ رکھنی چاہیں ۔
پہلی بات یہ ہے کہ ہم سے کتنے لوگ اس بات کو نکاح کرتے وقت مد نظر رکھتے ہیں ۔
دوسری بات اگر سب کوششیں ناکام ہوجائیں تو اس آیت کو مد نظر رکھ کر اس پر عمل کریں ۔

“فَابۡعَثُوۡا حَكَمًا مِّنۡ اَهۡلِهٖ وَحَكَمًا مِّنۡ اَهۡلِهَا‌ ۚ اِنۡ يُّرِيۡدَاۤ اِصۡلَاحًا يُّوَفِّـقِ اللّٰهُ بَيۡنَهُمَا‌” [سورة البقرة : 35]

«تو ایک منصف مرد کے گھر والوں سے اور ایک منصف عورت کے گھر والوں سے مقرر کرو، اگر وہ دونوں اصلاح چاہیں گے تو اللہ دونوں کے درمیان موافقت پیدا کر دے گا»
اگرچہ یہ حکم مردوں کے لیے ہے لیکن

“وَلَهُنَّ مِثۡلُ الَّذِىۡ عَلَيۡهِنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ‌”

کے تحت عورت کو بھی یہ حق حاصل ہے ، وہ اپنوں بڑوں کو بیچ میں لائیں معاملے کو بگاڑنے کے بجائے اصلاحی انداز میں بات کریں ، عورت یہ کہ دے کہ میں اس بندے کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتی ہوں ، لیکن یہ خود حرام کما کر جہنم کا سودا کر رہا ہے ، ہمیں بھی جہنم کا ایندھن کھلا رہا ہے ، میری اس بندے سے یہ درخواست ہے کہ روکھا سوکھا ہمیں کھلادے محنت و مزدوری کرکے لیکن ہمیں حرام نہ کھلائے ، ان شاءاللہ مسئلہ حل ہو جائے گا ۔

فضیلۃ العالم عبدالرزاق زاہد حفظہ اللہ

بیوی بچوں کیلیے جائز ہے، حرام تو کمانے والے کیلیے ہے، جیسے کسی کوئی کسی کو مزدوری حرام کمائی سے دے تو مزدور کیلیے تو مزدوری حرام نہیں ، بیوی کو چاہیے کہ حکمت و بصیرت کے ساتھ شوہر کو سمجھانے کی پوری کوشش کرتی رہے، اگر خود سمجھانے میں کوئی فائدہ محسوس نہ ہو یا الٹا نقصان کا اندیشہ ہو، تو خاندان کے معزز اور با اثر شخصیات کے ذریعہ شوہر کو سمجھانے کی کوشش کرے، اور ساتھ ساتھ اللہ تعالی سے اس کی ہدایت کی بھی دعا کرتی رہے، امید ہے کہ اس سے معاملہ حل ہو جائے گا ، اور بیوی اس بات کا بھی خیال رکھے کہ اس کے بھاری مطالبات کی وجہ سے کہیں خاوند یہ راستہ اختیار نہ کر رہا ہو۔

فضیلۃ العالم عبد الرحیم حفظہ اللہ

اس میں دو طرح کے فتوے ہیں مگر عورت کو جو کرنا ہے وہ یہ ہے کہ مرد کو نصیحت کی جائے اور اسے تنبیہ کی جائے اور عورت کے لئے اپنی ضروریات زندگی سے زیادہ نہیں لینا چاہیے کیونکہ فاضل مال اس کی ضرورت سے بڑھ کر ہے اور وہ بہرحال حرام ہے تو اسے توسع سے بچنا چاہیے۔
فتویٰ میں ایک یہ ہے کہ یہ اس کے لئے حلال ہے کیونکہ یہ اب مرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ حلال کما کر دے اگر ایسا نہیں کرتا تو اس کی ذمہ داری اس پر ہے نہ کہ عورت پر ہے۔
یہ عموما سعودی اہل علم کا فتوی ہے ۔
دوسرا یہ ہے کہ اس کے لئے یہ جائز نہیں ہے بلکہ سمجھائے ورنہ علیحدگی کا فیصلہ لے یہ بعض مصر کے اہل علم کا فتویٰ ہے تفصیل آپ ویب سائٹس پر سرچ کر سکتے ہیں۔
بجا فرمایا آپ نے ، یہاں ایک اور بات کا اِضافہ چاہوں گا کہ عورت کے اندر اس بات کی حمیت پیدا کرنی چاہیے مرد کی کفالت کا مطلب یہ نہیں کہ وہ زہر دے تو زہر بھی کھا لے بلکہ اپنے دین اور دنیا دونوں کی حفاظت کے لئے اس میں جرأت پیدا رکھنی چاہیے وہ ایک بوجھ نہیں بلکہ شرعی ذمہ داری ہے اگر وہ اسے شرعی انداز میں نہیں ادا کرتا تو عورت کے پاس کئی راستے ہوں اگرچہ ان کا استعمال درجہ بدرجہ ہو پہلے دعا اور نصیحت کی جائے اور اگر مرد حامی بھرتا ہو تو اس کی معاون بن جائے تاکہ حرام سے نکلنا آسان ہو یکدم یہ قدم اٹھانا مشکل ہوتا ہے اگر اس طرح سے ہو جائے تو ان شاءاللہ نوے فی صد کیسز ویسے ہی حل ہو جائیں گے

فضیلۃ العالم محمد زبیر غازی حفظہ اللہ

بیوی بچوں پر خرچ کرنا سب سے افضل صدقہ ہے، جیسا کہ صحیح مسلم میں [995/2322] نمبر پر حدیث موجود ہے:

“عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” دِينَارٌ أَنْفَقْتَهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَدِينَارٌ أَنْفَقْتَهُ فِي رَقَبَةٍ، وَدِينَارٌ تَصَدَّقْتَ بِهِ عَلَى مِسْكِينٍ، وَدِينَارٌ أَنْفَقْتَهُ عَلَى أَهْلِكَ، أَعْظَمُهَا أَجْرًا الَّذِي أَنْفَقْتَهُ عَلَى أَهْلِكَ”

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” (جن دیناروں پر اجر ملتا ہے ان میں سے) ایک دینا وہ ہے جسےتو نے اللہ کی راہ میں خرچ کیا ایک دیناروہ ہے جسے تو نے کسی کی گردن (کی آزادی) کے لیے خرچ کیا ایک دینا ر وہ ہے جسے تو نے مسکین پر صدقہ کیا اور ایک دینار وہ ہے جسے تو نے اپنے گھر والوں پر صرف کیا ان میں سب سے عظیم اجر اس دینار کا ہے جسے تو نے اپنے اہل پر خرچ کیا.
اور حرام چیز کا صدقہ قبول نہیں ہوتا،
جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث نمبر 224/535 میں موجود ہے :

“دَخَلَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ ، عَلَى ابْنِ عَامِرٍ، يَعُودُهُ وَهُوَ مَرِيضٌ، فَقَالَ: أَلَا تَدْعُو اللَّهَ لِي يَا ابْنَ عُمَرَ؟ قَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: ” لَا تُقْبَلُ صَلَاةٌ بِغَيْرِ طُهُورٍ، وَلَا صَدَقَةٌ مِنْ غُلُولٍ، وَكُنْتَ عَلَى الْبَصْرَةِ “

حضرت عبداللہ بن عمر ؓ ابنِ عامر کے پاس ان کی بیماری کی عیادت کے لیے گئے۔ ابن عامر نے کہا: اے ابنِ عمر! کیا آپ میرے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا نہیں کریں گے؟ عبداللہ ؓ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے: ”کوئی نماز پاکیزگی کے بغیر قبول نہیں ہوتی اور نہ کوئی صدقہ خیانت کی صورت میں۔“ اور آپ بصرہ کے حاکم رہ چکے ہیں۔
لہٰذا سمجھانے کی کوششوں کے بعد بھی اگر خاوند باز نہ آئے تو اس سے علیحدگی اختیار کرلی جائے.
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب وأتم علمه

فضیلۃ العالم عبد الخالق سیف حفظہ اللہ