سوال (439)

شیخ ایک سوال ہے ایک بندہ ہے اس نے پانچ سال پہلے اپنی بیوی کو علیحدہ علیحدہ دو طلاقیں دے دی تھیں بغیر گواہ کے ، اس کے بعد ابھی ان کی چپکلش وغیرہ ہوئی تو بیوی اپنے گھر چلی گئی اور کورٹ سے دو دفعہ طلاق کا لیٹر بھیجا شوہر کو کہ مجھے طلاق دے دو لیکن شوہر نے طلاق نہیں دی ہے ، بہرحال صورتحال کچھ اس طرح بنی کہ شوہر نے بیوی کے بھائیوں سے رابطہ کیا ہے ، ان سے بات چیت کی تو انہوں نے بہت ہی اصرار کیا اور پھر یہ لڑائی جھگڑا بڑھ گیا کہ ہمیں طلاق دے دو بالاخر شوہر کے یہ الفاظ تھے کہ اگر تمہیں طلاق ہی چاہیے تو لے لو یہ طلاق میں دیتا ہوں تو ان کا یہ معاملہ ہو گیا بہرحال کچھ عرصہ گزرا عورت کو گھر والوں نے الگ کرائے کا گھر لے کر دے دیا ، اب وہ عورت بھی بہت زیادہ اصرار کر رہی ہے کہ مجھے واپس اپنے شوہر کی طرف بھیج دو اور شوہر بھی نادم ہے لیکن اس میں سے وہ چاہ رہے ہیں کچھ بیچ کی راہ نکل جائے اور ہمیں رجوع کا کوئی حق مل جائے تو اس حوالے سے فتوی درکار ہے ، کراچی کے کسی شیخ نے بھی کچھ نرمی دکھائی البتہ فتوی نہیں دیا اور احمد شاکر مصر کے جو ہیں ان کی کتاب طلاق کا کچھ انہوں نے بتایا ہے کہ اس میں لکھا ہے کہ طلاق کے لیے گواہ درکار ہوں گے تو انہوں نے اس میں کہا ہے کہ نرمی آسکتی ہے البتہ فتوی نہیں دیا اور یہ کہا کہ علماء بھی اس میں نرمی دکھائیں اور گھروں کو جوڑیں گھروں کو بگاڑیں نہیں ، یہ بھی مسئلہ ہے کہ اس نے طہر کی حالت میں طلاق نہیں دی تھی ، اور گواہ بھی موجود نہیں تھے ، دو تین بچے ہیں اور اس کے علاوہ ابھی کرائے کے گھر میں ہیں ، بہت پریشان ہیں ۔ واللہ تعالی اعلم باقی مزید آپ رہنمائی فرمائیں ؟جزاکم اللہ۔

جواب

ایسے اہم مسئلے میں کھینچا تانی سے گنجائشیں نکالنے کا رجحان مستحسن نہیں ہے ۔

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ میاں بیوی حلفیہ بیان لکھ دیں کہ کیا جگھڑا ہوا ہے ، اس کے علاؤہ کیا کیا ہوا ہے ، دوسرا یہ ہے کہ یہ مسئلہ مقامی علماء کے سامنے رکھ دیا جائے ، تیسرا یہ ہے کہ سوال جس طرح ہمارے پاس آیا ہے اس سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ تیسری طلاق واقع ہوچکی ہے ، جہاں تک بعض علماء کا یہ کہنا ہے کہ طلاق گواہ کے بغیر نہیں ہوگی یہ بات محل نظر ہے ، گواہ کا معاملہ استحباب کے لیے ہے ، وجوب اور فرض کے لیے نہیں ہے ، اس نے طلاق دے دی ہے تو طلاق واقع ہوچکی ہے ، گواہ کی وجہ سے شبہ پیدا کرکے شبہ پیدا نہیں کی جا سکتی ہے ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ