ہم بھٹک جاتے ہیں۔۔۔کہیں دُور۔۔۔بہت پَرے۔۔۔کسی لق و دق، گرم سُلگتے اور سنسان صحرا کی طرف۔۔۔واہموں اور وسوسوں کے کے حصار میں آبلہ پائی اور صحرا نوردی کرتے کرتے ہم عین مایوسی اور ناامیدی کی چوکھٹ پر آ کھڑے ہوتے ہیں۔پھر ہمارے بدن کی اینٹیں چٹخنے لگتی ہیں، ہمارے اعصاب جواب دے جاتے ہیں، ہم مَحبّتوں کی جس بھی سطح مرتفع پر فائز ہوں، بالآخر لوگوں کی چترائی اور کج ادائی ہی ہمارے حصّے میں آتی ہے۔مہر و وفا کو کھوجتے اور تلاشتے ہم عمریں گزار دیتے ہیں مگر ہماری تمام تر جستجوؤں کے باوجود اپنے چہار سُو منافرت اور منافقت ہی کے ہجومِ بے کراں دِکھائی دیتے ہیں۔وہ تمام تر رشتے ناتے جو انتہائی مَحبّت مآب ہیں، آنکھوں میں ایسے درد اور اشک جھونک جاتے ہیں جن کا مداوا زندگی بھر ہو ہی نہیں پاتا۔آج جس طرف بھی جھانک لیں، عارض و لب و رخسار سب مطلب کے حصار میں جکڑے نظر آتے ہیں۔وہ، جنھیں ہمارے احسانات کو یاد رکھنا تھا اور وہ بھی جو ہماری مَحبّتوں کے مقروض تھے، وہ سب ہی طوطا چشم بن چکے ہیں۔یہ دنیا کو کیا ہو چکا کہ وہ شفق رنگ مَحبّتیں اور دھنک رنگ چاہتیں جو ماضی قریب تک ہمارے اردگرد بکھری تھیں، آج ہر طرف ہی معدوم ہیں۔ہر سُو چاہتیں بے رنگ، مَحبّتیں بے ڈھنگ اور عقیدتیں بے ذائقہ ہو چُکِیں۔
آئیے! ماضی کے کچھ اوراق پلٹتے ہیں اور منزّہ و مطہّر مَحبّتوں کی مآخذ شخصیت سے پھوٹتی چاہتوں کی اعلا و ارفع کہکشانوں کو دیکھتے ہیں۔ اسلوبِ مَحبّت کی حقیقی ضیا پاشیاں دیکھنی ہوں تو کیوں نہ ہم مدینے کے گلی کوچوں میں چلیں، مَحبّتوں کے ایسے جلترنگ مناظر کہیں بھی تو دِکھائی نہیں دیتے جو نبیِ مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل میں حضرت حَسن و حضرت حُسین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لیے موجود ہیں۔کائنات کی سب سے عظیم المرتبت شخصیت کے رحمت مآب لبِ مبارک صحیح بخاری میں یوں وا ہوتے ہیں کہ حَسن و حُسین (علیہم السّلام ) دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔ہم دنیا میں کسی نہ کسی اپنے پیارے کے لیے یہ لفظ ضرور استعمال کرتے ہیں کہ ” ہم یک جان دو قالب ہیں “ ترمذی میں محمدِ عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ حُسین (رضی اللہ عنہ ) مجھ سے ہے اور مَیں حُسین سے ہوں۔یہ بلند و بالا اعزاز بھی دنیا کے کسی اور شخص کو حاصل نہیں جو مسند احمد میں ہے کہ حضرت حُسین رضی اللہ عنہ جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں۔خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدّس اور پاکیزہ دل میں حضرت حَسن اور حضرت حُسین علیہم السّلام کے لیے چاہتوں کی نزہت اور شادابی کے ساتھ تڑپ دیکھیے کہ مسند احمد میں حدیث ہے کہ حضرت حَسن اور حضرت حُسین (علیہم السّلام) میرے بیٹے اور نواسے ہیں، اے اللہ! مَیں اِن دونوں سے مَحبّت کرتا ہوں تُو بھی اِن دونوں سے مَحبّت کر۔حقیقی مَحبّتوں کے قرینے اور سلیقے ملاحظہ کیجیے! کہ ترمذی شریف میں حدیث ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے ہیں، دورانِ خطبہ حَسن و حُسین رضوان اللہ علیہم اجمعین تشریف لے آئے تو خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر سے اتر گئے اور حَسن و حُسین (علیہم السّلام ) کو پکڑ کر سامنے لے آئے اور پھر خطبہ شروع کیا۔چشمِ فلک نے یہ مَحبّت آفریں منظر بھی تو دیکھا ہے کہ حَسن و حُسین رضوان اللہ علیہم اجمعین کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سجدے کو طویل کر دیا۔
آج ہمارے اردگرد موجود ہر رشتہ ناتا کٹھور پَن کے مہیب مرض میں مبتلا ہے۔وفا اور احسان مندی دیرینہ کہانیاں بن چکیں، الفتیں اور عقیدتیں کب کی معاشرے سے کُھدیڑ دی گئیں، مایوسی اور نا امیدی اپنے دانت کٹکٹاتی نظر آتی ہیں۔وجہ یہ ہے کہ ہم نے اس صراطِ مَحبّت اور اسلوبِ الفت کو چھوڑ دیا ہے جو محمدِ عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ساری انسانیت کو دیا تھا۔اگر ہم صعوبتوں میں ڈھلے رشتوں اور آزار بنے ناتوں کو جفا اور ریا سے پاک کرنے کے متمنّی ہیں، اگر ہم طمع اور حرص و ہوس کی آلایشوں میں لتھڑی چاہتوں کو تقدیس کے خوش نما رنگوں میں ڈھالنے کے خواہش مند ہیں تو ہمیں خلوص، مروّت اور مودّت کی مانگ میں وہی پاک و پوتر کہکشانیں بھرنی ہوں گی جو سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حضراتِ حَسنین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لیے لمحہ بہ لمحہ اور جا بہ جا موجود ہیں۔یقینا آپ نبیِ مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کو جس زاویے سے بھی دیکھیں گے، خلوص اور مہر و وفا میں عجب ہی ایمانی طغیانی اور جولانی امڈتی دِکھائی دے گی اور مجھے کہنے دیجیے کہ سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عمل کرنے ہی سے معاشرے کو خود غرضی کے گرداب سے نکالا جا سکتا ہے، بہ صورتِ دیگر تو لب و رخسار سے لے کر قول و قرار اور کردار تک سب ہی حرص و ہوس کے ندیدے دِکھائی دیں گے۔آخر میں سلام بہ حضور امامِ حسین علیہ السلام۔
ہر کوئی دل سے پکارا ہے حُسینؓ
جان سے بھی ہم کو پیارا ہے حُسینؓ
تیری عظمت کے نہ گائیں گیت ہم
ہم کو یہ کیوں کر گوارا ہے حُسینؓ؟
چومتے ہیں اُن کے چہرے کو رسولؐ
ساری دنیا سے نیارا ہے حُسینؓ
آؤ! سارے مل کے بولیں ایک ساتھ
جاں حَسنؓ ہے، دل ہمارا ہے حُسینؓ
جو مٹا دے مَن کی ساری تشنگی
آبِ شیریں کا وہ دھارا ہے حُسینؓ
ہر طرف ہی یہ صدائیں ہیں حیات!
بس ہمارا اور ہمارا ہے حُسینؓ