وہ درد آج تک سمٹ ہی نہیں پائے، اُن آنکھوں میں بسے آنسو آج تک خشک نہیں ہو سکے۔بھارتی گجرات کا قریہ قریہ الم ناک اور دل فگار سانحے کے باعث آج تک نڈھال اور نم ناک ہے۔ہندو اس قدر وحشی اور سنگلاخ دل ہو چکے تھے کہ انسانیت سسک سسک کر دم توڑ رہی تھی۔آج بیس سال گزرنے کے باوجود احمد آباد کی راتوں میں آج بھی اُن دکھوں کی سیاہی گُھلی ہے۔2002 ء کے قتل و خون کو بیس سال ہو چکے مگر آج بھی سیکڑوں بھارتی مسلمانوں کے اعصاب پر خوف سوار ہے، گودھرا سے 80 کلومیٹر دُور انجنوا گاؤں ہے جہاں کے مسلماں بارہ سالوں تک رات کے وقت اپنے گھروں کو چھوڑ کر باہر کہیں چُھپ جاتے کہ کہیں ہندو بلوائی پھر نہ ان کو قتل کرنا شروع کر دیں۔گجرات اور احمد آباد کے مسلمانوں کی آسودگیوں میں ایسے پیوند لگے ہیں کہ ان کی خوشیوں کے تمام رنگ پھیکے پڑ چکے۔بھارت میں توہین رسالت کے بعد اب وہاں کے مسلمانوں میں یہ فکر اور سوچ پَل کر جوان ہو چکی ہے کہ بی جے پی، مسلمانوں کی کُھلی جب کہ کانگریس چُھپی دشمن ہے۔2002 ء میں ہندو بلوائیوں نے نیزوں، کرپانوں اور خنجروں سے مسلح ہو کر ڈیڑھ ہزار سے زائد مسلمانوں کو انتہائی سفاکیت کے ساتھ قتل کر ڈالا تھا، کچھ مسلمانوں کے جسم جلا کر کوئلہ بنا دیے گئے تھے۔بے گھر اور بے دَر ہونے والے ڈیڑھ لاکھ مسلمانوں کا کرب آج بھی گجرات کی فضاؤں میں گُھلا ہے۔
پیپلز فار دی ایتھیکل ٹریٹمنٹ آف اینیملز (پیٹا) جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم کا نام ہے۔بھارت کے شہر بھوپال میں اس تنظیم کی ایک کارکن نے گذشتہ ایک عید پر گوشت کی بجائے سبزیوں کے ساتھ عید منانے کے لیے کہا تھا، اس لیے کہ جانور قربان کرنے سے جانوروں کے حقوق مجروح ہوتے ہیں۔وہ لوگ جانور ذبح کرنے کو جانوروں کے ساتھ ظلم سمجھتے ہیں، اسی لیے مسلمانوں کو گوشت خوری چھوڑ کر سبزی خور بننے کی تلقین کرتے رہتے ہیں، یہ سنتے ہی بھوپال کے مسلمانوں میں ایک بھونچال سا آ گیا تھا کہ عید پر جانوروں کی قربانی کی مخالفت کرنے سے ان کے مذہبی جذبات کی توہین ہوئی ہے۔بھوپال کے مسلمان احتجاج کناں ہوئے کہ قربانی کرنا ان کا مذہبی حق ہے، جس سے انھیں کسی طور نہیں روکا جا سکتا۔اُس وقت پوروا جوشی پورا نامی خاتون اس تنظیم کی سربراہ تھی، اس نے اپنی کارکن کے موقف کی تردید کی بجائے احتجاج کرنے والے مسلمانوں کے مطالبے ہی کو شرم ناک کہا تھا۔
عالَمِ کفر کی مسلمانوں کے خلاف نفرت اور حقارت دیکھیے کہ پہلے قرآنِ پاک کی تضحیک کی، پھر نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان کا استہزا کیا، اس کے بعد قرآن میں موجود جہادی آیات پر نشتر زنی کی، اور پھر ڈاڑھی، برقع اور حجاب پر بھی کوسنے ڈالے گئے۔اب بھارت میں قربانی پر دانتا کِلکِل ڈال کر بھارتی مسلمانوں کا جینا محال کیا جا رہا ہے۔کتَے، بلَی اور بکرے بکریوں کے حقوق کی محافظ اور نگہبان تنظیموں کو گجرات اور احمد آباد کے مسلمانوں کا کوئی ایک آنسو تک یاد نہیں، مگر جانوروں کے حقوق کے لیے ڈرامے رچانے کے لیے اپنے گلے پھاڑ پھاڑ کر اپنی آواز بلند کرتے ہیں۔ماحول کو آلودگی سے بچانے والے ان لوگوں کی آنکھوں میں ایسی دھول بھر گئی ہے کہ انھیں دنیا کے کسی بھی خطّے کے باسی مسلمانوں کا کوئی ایک قطرہ ء خون تک دِکھائی نہیں دیتا۔حقیقت یہ ہے کہ یہ تنظیمیں، مسلمانوں کو جانوروں سے بھی حقیر اور کم تر سمجھتی ہیں۔مسلمانوں کو آگ اور بارود میں بھسم کر دینا ان کے نزدیک کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں۔احمد آباد کے مسلمانوں کے زخموں کی خوں چکاں داستانیں آج بھی اُن فضاؤں میں محسوس کی جا سکتی ہیں، گجرات کے مسلمانوں کے پَور پَور اور انگ انگ پر آج بھی وہی خوف محسوس کیا جا سکتا ہے، مگر شقاوتوں کے وہ سفّاک مناظر بپا کرنے والا قزاق مودی آج بھی بھارت وزیرِ اعظم ہے، اِس کا مطلب بڑا واضح ہے کہ بھارتی مسلمانوں پر ظلم کبھی کم نہیں ہو گا۔آج بھی بھارتی مسلمانوں کو معیاری سکولز اور اعلا یونی ورسٹیز میں داخلہ نہیں ملتا، انھیں کلیدی عہدوں پر فائز نہیں کیا جاتا۔بھارتی مسلمانوں کے تمام حقوق پر بی جے پی اور دیگر شدت پسند ہندو تنظیمیں کنڈلی مارے بیٹھی ہیں۔ہزارروں مسلمان، خوف و ہراس کے حصار میں عید الاضحیٰ گزارتے ہیں۔اسلم کولسری کے بہ قول۔
عید کا دن ہے سو کمرے میں پڑا ہوں اسلمؔ
اپنے دروازے کو باہر سے مقفّل کر کے
جانوروں کے حقوق کی محافظ ان تنظیموں کو بھنڈی اور توریوں کے حقوق کے لیے بھی سرگرم ہو جانا چاہیے، اس لیے کہ جدید سائنس ان سبزیوں کو بھی جان دار سمجھتی ہے۔آخر انھیں مظلوم آلو کے حقوق کیوں یاد نہیں کہ اس بے چارے کا دنیا میں سب سے زیادہ قتلِ عام ہوتا ہے، یہ ہندو بچوں کی بھی محبوب و مرغوب غذا ہے، اس آلو کی چپس بنا کر، نمک مرچ ڈال کر اس کے زخموں پر نمک پاشی کی جاتی ہے، کتنی ہی گوبھیوں کے سَر روزانہ کاٹے جاتے ہیں مگر ہندوؤں کے دل میں کبھی ترحمانہ اور مشفقانہ جذبات نہیں امڈتے، ہندو کسان اپنی فصلوں پر کِیڑے مار ادویات چھڑک کر ان کِیڑے مکوڑوں کی جانیں لیتے ہیں، آخر کِیڑے مکوڑے بھی تو جان دار ہوتے ہیں اور فصلوں کو کھا کر اپنا پیٹ بھرنا ان کا بنیادی حق ہے، پھر کیوں سپرے کر کے ان کا قتلِ عام کیا جاتا ہے؟
ظالمو! مسلمانوں کا قتلِ عام کرتے وقت تمھارے دلوں میں حقوق کا واحد ” حق “ بھی سَر نہیں اٹھاتا۔احمد آباد اور گجرات کے ڈیڑھ ہزار سے زائد مسلمانوں کا بہیمانہ قتل اور ڈیڑھ لاکھ مسلمانوں کی زندگیوں میں دَر بہ دَری کے گھاؤ تمھارے کوڑھی ہاتھوں سے لگے ہیں۔گائے اور بکروں کے لیے ہلکان ہونے والو! کیا مسلمانوں کا کوئی حق نہیں، درحقیقت تمھارے دل، جانوروں کے لیے شفیق اور مہربان نہیں بلکہ تم اسلامی احکام کے ساتھ عناد کی بنا پر جانوروں کے حقوق کا ڈھنڈورا پیٹتے ہو۔مطالعہ کرو اسلام کا، جانوروں کو جو حقوق اسلام نے دیے ہیں وہ کسی اور مذہب نے آج تک نہیں دیے۔
مسلمان، اللہ کی خاطر صرف بکرے چھترے اور گائے ہی قربان نہیں کرتے بلکہ اپنی جانوں کو بھی قربان کرنا اپنے لیے اعزازوافتخار سمجھتے ہیں۔جانوروں کی قربانیاں دراصل دِین کے لیے اپنی جانوں کو قربان کرنے کا محرّک اور سبب بنتی ہیں۔تمھارے ساتھ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے متعلق تمھارے دماغ میں کیڑا ہے جو تمھیں مسلمانوں کے خلاف پیہم بے چین رکھتا ہے، خاص طور پر بقر عید بھارتی مسلمانوں کے لیے بہت بڑی آزمایش بنا دی گئی ہے، کتنے ہی بھارتی مسلمان ہیں جو خوشی اور طرب کی بجائے، کرب و اذیت کے حصار میں عید مناتے ہیں۔پنڈت جواہر ناتھ ساقی نے کہا تھا۔
فلک پہ چاند ستارے نکلنے ہیں ہر شب
ستم یہی ہے نکلتا نہیں ہمارا چاند