سوال           (128)

احادیث میں آتا ہے کہ سورج ہر روز اللہ کو سجدہ کرتا ہے، یہ کیسے ممکن ہے ؟ حالانکہ سورج تو ہر وقت کہیں نہ کہیں لوگوں کی نظر میں ہی ہوتا ہے، کبھی کسی نے اس کو سجدہ کرتے دیکھا تو نہیں!

جواب

متفق علیہ حدیث ہے کہ سورج اللہ کے عرش کے نیچے سجدہ کرتا ہے۔ ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا آپ کو پتہ ہے کہ سورج کہا جاتا ہے؟ تو انہوں نے عرض کی: اور اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“فَإِنَّهَا تَذْهَبُ حَتَّى تَسْجُدَ تَحْتَ العَرْشِ”. [صحيح البخاري:3199، صحيح مسلم:159]

بعض اہل علم نے اس کی توجیہ یہ کی ہے کہ اس سے مراد وہ سجدہ نہیں جو ہم سمجھتے ہیں بلکہ یہ ایک تمثیل ہے  جس طرح انسان کا سجدہ “وضع الجبهة علي الارض” یعنی زمین پر پیشانی ٹیک دینا ہے ، اسی طرح دیگر مخلوقات کی سجدے کی کیفیات مختلف ہیں شجر ، حجر کیڑے مکوڑے  وغیرہ سب سجدہ کرتے ہیں ، لیکن سب اپنے مناسبِ حال سجدہ کرتے ہیں ۔ اسی طرح سورج کا سجدہ بھی اس کے مناسبِ حال ہے. سورج کا سجدہ اس کا اپنے مدار میں گھومنا ہے وہ اپنے مدار میں چل بھی رہا ہے اور سجدہ ریز بھی ہے. جس طرح وہ ہر وقت غروب ہو رہا ہے اسی طرح وہ ہر وقت سجدہ ریز بھی ہے ۔

ممکن ہے سورج کے سجدہ سے مراد اس کا مدار میں گھومنا ہی ہو، لیکن یہ ایک ایسی تاویل ہے، جس کی نص سے تصدیق نہیں ہوتی، لہذا اس کی اہمیت ایک احتمال سے زیادہ نہیں۔

اس قسم کے سب مسائل کی تسلی بخش توجیہ یہ ہے کہ ایسے غیبی امور میں انسانی ذہن احتمالات پیش کر سکتا ہے، حتمی توجیہ پیش کرنا اس کے بس کی بات نہیں ہے۔

کیونکہ ان معاملات میں ہم جس قدر بھي امکانات پیش کریں گے، ہمیں ان کی حقیقت کا علم ہی نہیں ہے، اور جن چيزوں کو ہم ناممکنات میں سے سمجھتے ہیں، وہ بھی انسانی ذہن کے مطابق ہی ہے۔

جبکہ اللہ تعالی کے لیے کوئی بھی چیز ناممکن نہیں۔

کیا انسانی ذہن اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ سورج جتنی بڑی شے تخلیق کر کے اس کا باقاعدہ مدار طے کیا جاسکتا ہے؟ تو پھر اتنی بڑی مخلوق کا سجدہ کرنا نہ کرنا کیسے اس کی سمجھ میں آ سکتا ہے؟

لہذا ان معاملات میں تسلیم و رضا کا پہلو غالب ہونا چاہیے، اور اپنے ذہن اور عقل کو اس بات پر آمادہ کرنا چاہیے کہ ان چیزوں کو اپنی محدود عقل کے دائرے میں بند نہ کرنا ہی عقلمندی کی علامت ہے۔

بلکہ انسان کی عقل و سوچ اور صلاحیتیں تو اس قدر محدود ہیں کہ غیبی امور تو دور کی بات ہے وہ کئی ایک ظاہری چیزوں کا بھی درست ادراک نہیں کرسکتا۔ مثلا صحرا اور اس میں موجود ریت ہمارے سامنے موجود ہے۔ لیکن اگر ہم اس کے ذرے گننا شروع کر دیں تو کوئی انسان نہیں گن سکتا، اور یہاں عقلمند اسے ہی سمجھا جائے گا جو ریت کے ذرات شمار کرنے میں نہ پڑے گا! اور جو مصر ہو جائے کہ میں ریت کے ذرات، پانی کے قطرات، ہوا کے جھونکوں، آسمان کے ستاروں کو شمار کر کے چھوڑوں گا، وہ وقت بھی ضائع کرے گا اور ہوسکتا ہے کہ اس سے عقل کی نعمت بھی چھن جائے!

رہی یہ بات کہ سورج کہیں جاتے ہوئے نظر نہیں آتا یا ایک لمحے کے لیے بھی غائب نہیں ہوتا، یا اس کے سجدہ کرنے سے تو اوقات میں فرق آسکتا ہے، تو یہ سب باتیں نظام قدرت کو انتہائی محدود سوچ سے سوچنے کا نتیجہ ہے.. ورنہ تو آج  ٹیکنالوجی کی بدولت انسان بہت سارے کام ایسے کر رہے ہیں، جنہیں آج سے چند سو سال پہلے محال سمجھا جاتا تھا۔ لہذا آج درجنوں بلکہ سیکڑوں ہزاروں لوگ مختلف جگہوں پہ ہونے کے باوجود ایک ہی جگہ پر بھی اکٹھے ہوسکتے اور دیکھے جاسکتے ہیں۔

تو کیا اللہ رب العالمین کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ سورج اللہ کی ذات کو سجدہ بھی کرے اور ہمیں نظر بھی آتا رہے؟

اللہ تعالی نے انسانوں کو عقل سے نوازا ہے آج تک انسان نے کوئی بھی ایسا عقلی استحالہ ایجاد نہیں کیا کہ جس کا جواب اللہ تعالی نے کسی دوسرے کے ذہن میں نہ ڈالا ہو۔

ہر عقلی اعتراض کا عقلی جواب ممکن ہے،  لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم جتنے بھی عقلی جواب دیں وہ کتنے ہی معقول کیوں نہ ہوں ان سب پر یہ عقیدہ باری ہے کہ اللہ تعالی نے جو چیز جس طرح بیان کر دی ہے اس کا ویسے ہی ہونا عین ممکن ہے ہمیں سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔ واللہ اعلم۔

فضیلۃ العالم خضر حیات حفظہ اللہ