قلب و نظر کی پستیاں ہوں یا کردار و عمل کی گمراہیاں، اخلاق و عادات کی آوارگیاں ہوں یا بے راہ روی کی گراوٹیں، قرآن مجید، رشد و ہدایت ایک ایسا سر چشمہ ہے جو ہمہ قسم کی تیرگیوں میں بھٹکتے لوگوں کو راہِ مستقیم پر لے آتا ہے۔بے بضاعتی میں گِھرے لوگوں کی انفرادی زندگیاں ہوں یا اجتماعی حیات، جس نے بھی قرآن ذی شان سے ناتا جوڑا وہ ایسے سرور اور کیف سے نواز دیا گیا کہ جو دنیا میں کہیں بھی میسر نہیں، پھر اُس کے سارے دکھ، درد اور غم غلط ہو کر رہ گئے۔مَیں آپ کے سامنے دو مناظر پیش کرنا چاہتا ہوں، پہلا منظر بڑا ہی روح فرسا ہے اور دل دوز بھی، جب کہ دوسرا منظر بے حد روح پرور اور نشاط انگیز ہے۔
یہ سویڈن کا دارالحکومت سٹاک ہوم ہے، یہاں ترکی کے سفارت خانے کے باہر حکومتی دائیں بازو کے کارکن ترکی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں، راسموس پالوڈان نامی ایک کارکن قرآنِ مقدّس کو آگ لگا رہا ہے، وہ اس سے قبل بھی قرآنِ مجید کو نذرِ آتش کرنے کی دھمکیاں دے چکا تھا۔دنیا کے ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کے جذبات و احساسات کو کچل کر رکھ دیا گیا۔اس انتہا پسندی اور دہشت گردی کی وجہ یہ بیان کی جا رہی ہے کہ روس یوکرین جنگ کی وجہ سے سویڈن نیٹو فوجی اتحاد میں شامل ہونا چاہتا ہے، مگر ترکی اس کی مخالفت کر رہا ہے، ترکی کے اسی ” جرم “ کی پاداش میں دائیں بازو کے کارکنان ترکی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں اور قرآن مجید تک کو آگ لگا دیتے ہیں۔
اگر سویڈن کی نیٹو فوجی اتحاد میں شامل ہونے کی ترکی مخالفت کر رہا ہے تو نیٹو فورسز کا آئین اسے یہ اجازت دیتا ہے اور ترکی کا یہ مخالفت کرنا قواعد و ضوابط کے عین مطابق ہے۔ترکی ہی نہیں نیٹو اتحاد میں شامل کوئی بھی اتحادی مُلک، نئے شامل ہونے والے مُلک کی مخالفت کرنے کا مکمّل حق رکھتا ہے۔جب ترکی کی یہ مخالفت آئین اور قانون کے مطابق ہے تو پھر سویڈن اتنی شدت پسندی پر کیوں اتر آیا ہے کہ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے ایمان و ایقان کی ماخذ مقدس کتاب قرآن مجید کو آگ لگا دی جاتی ہے۔اگرچہ سویڈن کے وزیرِ اعظم الف کرسٹرسن اور وزیرِ خارجہ ٹوبیاس بلسٹروم نے نپے تلے سے الفاظ میں اس کی مذمت کی ہے، مگر ایسی خفیف اور محتاط سی مذمت کا کوئی فائدہ نہیں اور نہ اس نوع کی مذمت ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے کرب اور اذیت کا ازالہ کر سکتی ہے۔یہ ایک ایسا اندوہ ناک منظر ہے کہ جس پر سارا عالمِ اسلام مضطرب ہے۔
اب آئیے! دوسرا منظر بھی دِکھاتا ہوں، جو بڑا ہی دل رُبا اور دل کُشا ہے۔یہ ایمان آفریں منظر برطانوی اخبار ” انڈی پینڈینٹ “ میں بھی شائع ہو چکا ہے۔” آلن رونی “ کا تعلق سکاٹ لینڈ کے شہر اینفرینس سے ہے، وہ چھٹیاں گزارنے ترکی جاتا ہے، ترکی کی مساجد میں اذان کی آوازیں بلند ہُوتی ہیں، یہ آوازیں اس کے دل میں گھر کر جاتی ہیں، وہ واپس اپنے شہر پہنچتا ہے اور قرآنِ مجید کا انگریزی ترجمے کا نسخہ خرید لیتا ہے۔وہ خود کہتا ہے کہ ” مَیں نے قرآن پڑھنا شروع کیا تو یہ میرے لیے ایک جھٹکا ثابت ہُوا، کیوں کہ قرآن مجید میں نفسِ انسانی کے متعلق بیش بہا معلومات تھیں اور ایسے ایسے رازوں سے پردہ اٹھایا گیا تھا کہ جن کے متعلق پڑھ کر انسان ششدر رہ جاتا ہے “ آلن رونی مزید کہتا ہے کہ ” مَیں نے تین بار قرآن کا مطالعہ کیا اور ہر بار پہلے سے زیادہ آگاہی ملتی گئی “ قرآن پڑھ کر اُس کے دل کی دنیا یکسر ہی بدل گئی۔بالآخر آلن رونی نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کر لیا مگر دل میں طرح طرح کے خدشے اور وسوسے پیدا ہونے لگے کہ دوست احباب کیا کہیں گے؟ اہلِ خانہ اُسے طعنے دیں گے، اگرچہ اس کے سامنے مسائل کا ایک ہجوم لگا تھا مگر اس کے دل میں اسلام راسخ ہو چکا تھا، پھر وہ رحمت مآب لمحات بھی آئے کہ اس نے انٹرنیٹ پر نماز سیکھی اور اٹھارہ ماہ کی تحقیق کے بعد اسلام قبول کر لیا۔
یہ فقط ایک نہیں بلکہ ایسے سیکڑوں واقعات ہیں کہ آج مغرب اور یورپ میں اسلام پھیل رہا ہے۔اسلام قبول کرنے والوں کی کثیر تعداد سفید فام خواتین کی ہے، وہ خواتین جو بے راہ روی سے سخت عاجز أ چکی ہیں، اب شجرِ اسلام کے سایہ ء عاطفت میں سکون ڈھونڈ رہی ہیں۔” فیتھ میٹرز “ کے مطابق بھی برطانیہ میں پھیلنے والا سب سے بڑا مذہب اسلام پے۔اسلام قبول کرنے والوں میں 66 فی صد ایسی خواتین ہیں جن کی عمریں 27 سال تک ہیں۔
راسموس پالوڈان تعصّب، عناد اور فساد کو دل سے نکال کر آلن رونی سے ملاقات کرے اور دیکھے کہ کس طرح قرآن مجید نے آلن رونی کی کایا پلٹ کر رکھ دی۔ملعون راسموس پالوڈان نے قرآن کی توہین کی مگر اب یورپ اور مغرب میں قرآن مجید لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہو گا اور اسلام مزید تیزی سے پھیلے گا ( ان شاءاللہ )۔