سوال (2404)
کیا سید فیملی کا باہر رشتہ دے سکتے ہیں؟
جواب
جی سید بھی غیر سید کو رشتہ دے سکتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اللہ تعالی نے تمام مسلمانوں کو ایک ہی برادری بنایا ہے۔
فضیلۃ العالم ڈاکٹر ثناء اللہ فاروقی حفظہ اللہ
نکاح کے لیے صرف دین میں برابری ہونی چاہیے۔ اس کے علاوہ برابری خاندان، علم، شکل وصورت، مال وغیرہ کی برابری شرعی حکم نہیں ہے اگرچہ عرف کے تحت اسے ملحوظ رکھا جا سکتا ہے۔
امام مالک، ایک روایت کے مطابق امام احمد اور امام ابن تیمیہ، امام ابن قیم رحمہم اللہ نے نکاح میں صرف دین کی برابری کو شرط قرار دیا ہے جبکہ جمہور فقہاء نے اس کے علاوہ خاندان اور پیشہ وغیرہ کی برابری کو بھی شرط قرار دیا ہے۔ پہلا قول راجح ہے اور اس کے دلیل کے بارے تذکرہ کرتے ہوئے شیخ صالح المنجد ایک مقام پر امام ابن قیم رحمہ اللہ کے ذکر کردہ دلائل نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
“يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوباً وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ” [الحجرات: 13]
یہ بات درست ہے کہ عرف میں نکاح کے دوران دین کے علاوہ ان چیزوں کا بھی لحاظ رکھا جاتا ہے تا کہ میاں بیوی کے مابین نباہ میں آسانی ہو۔ اگر ایک پی ایچ ڈی یا لیڈی ڈاکٹر خاتون کی شادی کسی میٹرک پاس شخص سے کر دی جائے گی تو نباہ میں مشکلات تو بہت زیادہ ہوں گی۔
اسی طرح اگر کسی لکھ پتی کی بیٹی کی شادی کسی بے روزگار شخص سے کر دی جائے گی تو وہ لڑکی اس کے لیے شدید مشکلات پیدا کرے گی۔
اسی طرح اگر کسی سید زادی کی شادی کسی اور ذات کے شخص سے کر دی جائے گی تو شاید نباہ مشکل ہو جائے گا لہذا عرف کے اعتبار سے ان چیزوں کا لحاظ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن یہ کوئی شرعی تقاضا نہیں ہے یعنی اگر لڑکی اور لڑکے کے اولیا یا لڑکی اور لڑکا آپس میں شادی پر دلی طور راضی ہوں تو پھر اس قسم کے معیارات کوئی رکاوٹ نہیں ہیں۔
فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ