جب فحاشی اور عریانی سے اٹا لہو رگوں میں دوڑنے لگے تو پھر ازدواجی زندگیاں سسکنے لگتی ہیں۔جوں جوں ہوس اور بدکاری منہ زور ہوتی جاتی ہیں، ازدواجی حیثیت مفلوج اور اپاہج ہو کر لاٹھیوں کے سہارے چلتے چلتے بالآخر دھڑام سے گر جاتی ہے۔آپ ساری دنیا پر نظریں دوڑا لیں، جس ماحول اور معاشرے میں بے حیائی کا عفریت اپنے دانت تیز کر چکا ہے، اُن ممالک میں طلاق کی شرح کے اعداد و شمار آپ کو چونکا ڈالیں گے۔
وینڈی لوئیس ایک نوجوان لڑکی تھی، اُس کے شوہر نے اسے طلاق دی تو اُس نے اپنے اندر دہکتے دکھ اور کلبلاتے کرب کے الاؤ کو خوشی میں تبدیل کرنے کا ایک عجیب فیصلہ کیا، اُس نے امریکی ریاست نیواڈا کے معروف شہر لاس ویگاس میں ایک تقریب منعقد کر کے اپنے عروسی جوڑے کو گولیوں سے چھلنی کرنے کا پروگرام تشکیل دیا۔آپ یہ پڑھ کر چونک اٹھیں گے کہ اسی شہر میں اب ایسی کمپنیوں کے کاروبار کو وسعت ملتی جا رہی ہے جو طلاق کے بعد طلاق کے غم کو کم کرنے کے لیے تقریبات کے انتظامات کرتی ہیں۔وینڈی لوئیس نے ایک ایسی ہی تقریب میں اپنے سفید عروسی جوڑے کو گولیوں سے بھون ڈالا۔بی بی سی اردو ڈاٹ کام کے مطابق اسی شہر میں کنوارے لوگ بھی اپنی شادی سے چند دن قبل اپنے کنوارے پَن کا جشن منانے کے لیے جمع ہو کر تقریبات منعقد کرتے ہیں، یہ تقریبات باقاعدہ مختلف کمپنیاں منعقد کرتی ہیں۔جہالت اور حماقت ہمہ قسم کی بندشوں اور قدغنوں سے آزاد ہُوا کرتی ہیں۔کنوارے پَن کے آخری لمحات کا جشن اور پھر طلاق کے بعد بھی جشنِ طرب؟ یہ امریکی قوم کی عقل و دانش کو کیا ہو گیا؟ مَیں اسے جشِ طرب کی بجائے جشنِ کرب کا نام دوں گا۔طلاق کے الفاظ تو دلوں کو چِیر ڈالتے ہیں، یقیناً امریکی لڑکیوں کے کلیجے بھی لفظ ” طلاق “ سُن کر دہک اٹھتے ہوں گے مگر وہ اس پر جشن منا رہی ہیں۔امریکا کے لیے یہ ایک سوالیہ نشان ہے کہ وہ کمپنیاں اب کنوارے پَن کے جشن سے زیادہ طلاق پارٹیوں کا انتظام کرتی ہیں۔امریکا میں طلاق پارٹیوں کا کاروبار تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔ایسی خواتین جو طلاق کے جشن کو زیادہ دھوم دھام سے نہیں منانا چاہتیں، ان کے لیے یہ کمپنیاں ” طلاق کیک “ ان کے ہوٹل میں پہنچا دیتی ہیں جسے وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ کاٹ کر آزاد زندگی کی خوشیاں مناتی ہیں، طلاق کیک پر مختلف ڈیزائن بنائے جاتے ہیں۔اکثر مطلّقہ خواتین کی خواہش ہوتی ہے کہ ایسا کیک بنایا جائے جس پر ایک خاتون ایک مَرد کو ٹانگ سے گھسیٹ کر باہر پھینک رہی ہوتی ہے اور نیچے لکھا ہوتا ہے ” کوڑے کے ساتھ یہ بھی لے جاؤ “ امریکا اور مغرب کی خوں چکاں ازدواجی حیثیت ان کے خمیر و ضمیر کے گریبانوں کو جھنجوڑ کر ان کے سرخ گالوں پر طمانچے رسید کر کے انھیں ہوش میں لانے کی کوشش کر رہی ہے مگر عیاشی کے نشے میں مست وہ اس پر دھیان دینے کے لیے تیار ہی نہیں۔امریکا میں 50 فی صد لوگ اپنی بیویوں کو طلاق دے دیتے ہیں، یعنی ہر دوسری شادی شدہ عورت مطلقہ بن چکی ہے۔مغربی کلچر میں تو اپنی شریکِ حیات کا انتخاب کرتے کرتے 50 سال کی عمر میں پہنچ جاتے ہیں۔وہاں نوّے فی صد شادیاں 50 سال کی عمریں ہوتی ہیں۔سویڈن میں طلاق کی شرح امریکا سے بھی زیادہ یعنی 55 فی صد ہے۔آسٹریلیا میں 46، برطانیہ میں 43، کینیڈا میں 40 ، اسرائیل میں 26، سوئٹزرلینڈ میں 25 اور گرِیس میں 18 فی صد لوگ اپنی بیویوں کو طلاق دے دیتے ہیں، جن یورپی ممالک میں طلاق کی شرح 18 فی صد تک ہے، ان کے متعلق یہ گمان ہر گز نہ کریں کہ وہاں شادیاں کامیاب ہو جاتی ہیں، دراصل وہاں طلاق کی شرح میں کمی کی وجہ یہ ہے کہ وہ۔لوگ شادیاں ہی کم کرتے ہیں، طلاق تو اسی وقت ہو گی جب شادی جیسا فریضہ انجام دیا جائے گا، بے ہودگی دیکھیے کہ وہ لوگ شادی کو فرسودگی سمجھتے ہیں۔پیرس جیسے شہر میں کئی کئی سالوں تک ایک شادی بھی نہیں ہوتی۔
طلاق ایک انتہائی گھناؤنا فعل ہے، اسلام میں حلال کاموں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ کام طلاق ہی ہے۔آج جدید سائنس بھی یہ ثابت کرتی ہے کہ طلاق کے اثرات انسانی صحت اور ماحول پر ایسے پڑتے ہیں کہ ان کا ازالہ ہی ممکن نہیں۔ ” جنرل آف ہیلتھ اینڈ انٹرنیشنل بی ہیویز “ کی طلاق کے متعلق ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق طلاق کے اثرات اتنے اچانک اور بھیانک ہوتے ہیں کہ بعض اوقات دوسری شادی بھی ان کو مندمل نہیں کر سکتی۔طلاق یافتہ لوگوں میں مہلک بیماریوں میں مبتلا ہونے کے امکانات دوسرے لوگوں کی نسبت 20 فی صد زیادہ ہوتے ہیں۔51 سے 61 سال کی عمر کے 8 ہزار افراد پر کی گئی تحقیق کے مطابق ایسے افراد جو شادی کے بعد اپنی بیویوں کے ساتھ بہ ترین زندگی بسر کرتے ہیں اور کسی بھی طلاق کے تجربے سے نہیں گزرتے، ان کی صحت کا معیار بھی کنوارے لوگوں کے برابر ہوتا ہے، ایسے لوگ جو طلاق کے بعد دوسری شادی کر لیتے ہیں، ان میں مہلک امراض میں مبتلا ہونے کے امکانات کم تو ہو جاتے ہیں مگر مکمل طور پر ختم نہیں ہوتے، لیکن امریکیوں پر تو یہ تحقیق بھی سچ ثابت نہیں ہو رہی کیوں کہ وہاں پہلی شادی کے بعد 50 فی صد لوگ طلاق دیتے ہیں جب کہ دوسری شادی کے بعد 67 اور تیسری شادی کے بعد 74 فی صد لوگ اپنی بیویوں کو طلاق دے کر چلتا کرتے ہیں۔
سہانے مستقبل کی تکمیل کے لیے امریکا جانے کے دیوانے لوگوں کے لیے یہ اعداد و شمار کسی گھونسے کی مانند ہیں، کیوں کہ اُس معاشرے کی حالت اتنی ابتر ہو چکی ہے کہ وہاں ازدواجی زندگی ایک تماشا بن کر رہ گئی ہے۔آپ نے وینڈی لوئیس کے متعلق پڑھ لیا کہ اس نے ایک تقریب منعقد کر کے اپنے سفید عروسی جوڑے کو گولیوں سے چھلنی کر دیا تھا مگر آپ کے تخیّل میں اس حقیقت کا گزر نہیں ہُوا کہ اس ستم زدہ خاتون کا یہ تقریب منعقد کرنے کا مقصد کیا تھا؟ یقیناً اُس نے اپنے دکھوں کی گہرائی کو چُھپانے کے لیے ایسا کیا ہو گا۔اُس نے اپنی لیر و لیر اور جلی کٹی ازدواجی زندگی کے باعث ملنے والے کرب اور کسک کو چُھپانے کے لیے یہ سب کچھ کیا۔امریکی خواتین جو طلاق کیک پر ایسا ڈیزائن بنواتی ہیں کہ ایک خاتون کسی مَرد کو پاؤں سے گھسیٹ کر باہر پھینک رہی ہے، یہ بھی محض اپنے سلگتے دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے کرتی ہیں، وہ اپنے مَن کو جھوٹی تسلی دیتی ہیں کہ انھوں نے اپنے خاوند کو گھسیٹ کر باہر پھینک دیا ہے، حقیقت یہ ہے کہ امریکی عورت، مًردوں کے حریص ہاتھوں اور خبیث دہلیزوں پر پڑی سسک اور تڑپ رہی ہے، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکی عورت کو یہ سزا بھی اس بات کی مل رہی ہے کہ امریکا، مغرب اور یورپ کے حیا باختہ مَردوں نے عورت کو بے لباس کیا تو وہ ہوتی چلی گئی اور وہ اتنی برہنہ ہوئی کہ آج بھی یورپ کے گلی بازاروں میں برہنگی کی حالت میں پھرتی ہیں، ان عورتوں کے جسم پر مَردوں جتنا لباس بھی نہیں ہوتا۔طلاق کیک کے ڈیزائنوں پر تو عورت، مَردوں کو ٹانگ سے پکڑے باہر گھسیٹ کر پھینک رہی ہے جب کہ حقیقت میں مَردوں نے انھیں کھلونا، تماشا اور صرف اپنی دل بستگی کا سامان بنا رکھا ہے، ایسی عورتوں کو چاہیے کہ وہ کلمہ پڑھ کر اسلام قبول کر لیں، اُن کی عزت، آبرو اور وقار سب کچھ محفوظ ہو جائے گا، اُنھیں بااعتماد حیثیت بھی ملے گی۔آج بھی اسلامی ممالک میں طلاق کی شرح ایک فی صد سے بھی کم ہے، مسلم معاشروں میں اعلا تعلیم یافتہ اٹھارویں اور انیسویں سکیل کے مَرد بھی اَن پڑھ عورتوں کے ساتھ بڑی ہی خوش گوار زندگی گزار رہے ہیں۔جو خواتین اسلام کے پُرسکون سائے میں آئے گی اُس کو نہ صرف آخرت میں توقیر ملے گی بلکہ ان کی زندگیوں میں 99 فی صد تک ” طلاق کیک “ کی ضرورت بھی باقی نہیں رہے گی۔ (ان شاءاللہ )