تقدیرِ ازلی میں لکھا کون ٹالے؟ جی ہاں :

اے صنم وصل کی تدبیروں سے کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے

حاشیہء خیال میں بھی نہیں تھا کہ درس و تدریس کی وادی کا مسافر قرار پاتے ہوئے پاؤں میں اس مقدس شعبے کی ایسی بیڑیاں پہنائی جائیں گی کہ :

آشیاں جل گیا، گلستاں لٹ گیا، ہم قفس سے نکل کر کدھر جائیں گے
اتنے مانوس صیاد سے ہو گئے، اب رہائی ملے گی تو مر جائیں گے

عرصہ گیارہ برس اس کوچہء مجنوں میں رہ نوردی کرنے کے بعد طلبہ کی کچھ اقسام سمجھ آئی ہیں… یہ تحریر خاص طور پر چکی کے دو پاٹوں میں پسنے والے افراد کے کام آئے گی اور انہیں حکمت و مصلحت کے وہ اسرار و سمجھائی گی جس کی روشنی میں انہیں طلبہ سے معاملات کرنے کا ادراک ہوگا. ان شاء الله.
1 : نہایت محنتی اور مؤدب طلبہ…ان میں کچھ سیکھنے کی لگن اور تڑپ ہوتی ہے…ہمہ تن گوش کاغذ قلم ہاتھ میں تھامے یہ ان ہیروں، موتیوں اور جواہرات کے منتظر رہتے ہیں جو استاد محترم کی زبان سے ادا ہوں…ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وقت سے پہلے حاضر ہوں اور استاد کے سامنے بیٹھیں تاکہ نگاہ سے نگاہ ملتی رہے… وہ اس دلنشیں حقیقت سے آشنا ہوتے ہیں:

تم اگر یوں ہی نظریں ملاتے رہے
مے کشی میرے گھر سے کہاں جائے گی

ایسے طلبہ جہاں عملی میدان میں جا کر دنیا جہاں کی کامیابیاں سمیٹتے ہیں وہیں ان کی جہود و مساعی کی بدولت ان کے اساتذہ کا سر بھی فخر سے بلند ہوتا ہے.

2 : نہایت مؤدب اور استاد کا دل سے احترام کرنے والے طلبہ…یہ چاہے کلاس میں حاضری اور حضوری کے آداب سے ناواقف ہوتے ہیں…سمجھ بھی کم ہی آتی ہے… تحریر و تقریر کا سلیقہ بھی نہیں ہوتا مگر گوش برآواز رہتے ہیں…ان کی کوشش ہوتی ہے کہ استاد صاحب کی خدمت کا موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا جائے… جوتیاں سیدھی کرنا …گرمیوں میں ٹھنڈا پانی پلانا ، بجلی جانے کی صورت میں ہوا دینا اور سردیوں میں چائے نوش صاحبان کے لیے جام و سبو کا بندوبست انہیں کے ذمے ہوا کرتا ہے. سچی بات تو یہ ہے کہ پہلی اور دوسری قسم کے طلبہ کو جہاں علمی اسرار و رموز سے آگاہ کرنے کو دل کرتا ہے وہیں ان کے لیے دل سے دعائیں نکلتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں کامیابیاں عطا فرمائے.
3 : نہایت ذہین ترین طلبہ…یہ بات کو بہت جلد سمجھ جاتے ہیں مگر ان کی کوشش ہوتی ہے کہ تجاہلِ عارفانہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے استاد کو یہ باور کرایا جائے کہ مجھے سب کچھ پہلے سے آتا ہے…میں تو بس وقت گزاری اور سندِ فضیلت کے حصول کے لیے یہاں تشریف کا ٹوکرا جمائے بیٹھا ہوں… کسی بڑے عالم و فاضل کی مانند نگاہیں زمیں بوس کیے ہوتے ہیں مگر کان استاد کی بات کی طرف ہوتے ہیں…ان ميں سے بعض استاد کے علمی نکات پر تائید کی زحمت فرماتے ہوئے میکانکی انداز میں سر ہلاتے ہوئے استاد کی استادی پر مہرِ تصدیق ثبت کرتے ہیں اور خدانخواستہ جیسے ہی حضرتِ شیخ سے سبقتِ لسانی یا کوئی غلطی ہوئی فوری شور مچانا شروع کردیا…اگر شُنوائی نہ ہو تو صبح سے پہلے پہلے ہر جگہہ اس غلطی کا ڈھنڈورا پیٹ دیا جاتا ہے :

ان کی اس کوشش بے حد کا پتہ دیتا ہے
چارہ سازوں کا مرے لاش پہ گریاں ہونا

برا ہو اس سوشل میڈیا کا جس نے ان بخت ماروں کا بعد از فراغت بھی شر جاری رکھا ہوا ہے اور یہ اس کا سہارا لے کر اپنے ناپسندیدہ مربّی حضرات کو اشاروں کنایوں میں مشقِ ستم بنائے ہوئے ہیں :

تم سلامت رہو کس شوق سے اٹھی لاش ہماری
تم نہ آتے تو نہ یہ رونق نہ یہ ساماں ہوتا

4 : کسی دباؤ کے زیرِاثر ادارے میں تعلیم کے لیے آنا…عام طور پر ایسے طلبہ کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہوا کرتی ہے…اگر نصیب چمک اٹھا اور قسمت یاوری کرے تو یہ ذرہء خاک آفتاب و مہتاب بن کے ابھرتا ہے. بصورتِ دیگر اس بیچارے کا مستقبل داؤ پہ لگ جاتا ہے. والدین کو چاہیے کہ ان بیچاروں کی بیچارگی پر رحم کرتے ہوئے انہیں اپنے مستقبل کے بارے میں خود فیصلے کرنے دیں تاکہ ان میں خود اعتمادی جنم لے اور وہ معاشرے کے کامیاب افراد کی فہرست میں شامل ہوکر اپنے اور لوگوں کے لیے نفع بخش ثابت ہوں.
5 : موقع شناس…ابو زيد سروجي کی مانند یہ بلا کے چہرہ شناس اور گھاگ ہوتے ہیں…یہ جلد ہی جان لیتے ہیں کہ مفادات کا حصول کہاں سے ممکن ہے…یہ تاک تاک کر خاص حضرات کو نشانہ بناتے ہوئے ان کے لیے دامِ ہمرنگ بچھاتے ہیں تاکہ مقربين کی صف میں شامل ہوکر مفادات کے تحفظ کے ساتھ ساتھ دوست احباب کا جینا حرام کیا جاسکے…ایسے سازشی عناصر کے سائے سے بھی دور رہتے ہوئے ان کے شر سے پناہ مانگنی چاہیے کیونکہ یہ ہمارے تو کیا جن سے فیضیاب ہوتے ہیں ان کے بھی سگے نہیں ہوتے ہیں. ہائے :

ہوئی ہیں دیر و حرم میں یہ سازشیں کیسی
دھواں سا اٹھنے لگا شہر کے مکانوں میں
استادوں کے استاد یہ شہزادے ٹیڑھی آنکھوں سے ہر شے کا جائزہ لیتے ہوئے بےلاگ تبصرے کرنے میں اس لیے کوئی عار محسوس نہیں کرتے کہ لطف و کرم کا بادل ان پہ سایہ فگن ہوتا ہے.
6 : صاحبزادگان و شہزادگان :
انوکھی وضع ان کی ساری دنیا سے نرالے ہیں
کے مصداق یہ خود کو ہر طرح کی حدود و قیود سے مستغنی سمجھتے ہوئے تمام اصولوں، ضابطوں اور قاعدوں کو یہ کہہ کر چٹکیوں میں اڑا دیتے ہیں کہ :
ہم سے ہے زمانہ زمانے سے ہم نہیں
آہ فآہ ثم آہ…اس طبقے کو اس امر کا احساس تک نہیں کہ ان کے کاندھوں پہ کتنی بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے…ان احباب کو جس قدر ایثار پیشہ، بے نفس اور عاجز و منکسر ہونا چاہیے یہ اسی قدر جانے کس خمار میں مبتلا، علم وعمل سے تہی دست اور کورچشم نظر آتے ہیں…ان کی نالائقی اور خرابی کے ذمہ دار وہ مدرسین بھی ہیں جو حکمت و مصلحت کے پیشِ نظر
ان سے اغماض برتتے ہیں حالانکہ انہیں ان کی بری حرکات پر کڑی سے کڑی سزا دی جانی چاہیے تاکہ یہ دوسروں کے لیے باعثِ عبرت ہوں مگر :

اے بسا آرزو کہ خاک شُد کے مصداق
ان کی گوشمالی کرنے والے نشانہء عبرت بنا کر طاقِ نسیاں میں سجا دیے جاتے ہیں. فيا للمصيبة ويا للرزية.

عبد العزيز آزاد