تنگ نظری، تعصب اور جمود

پہلے ان الفاظ کا عام فہم معنی جو میرے ذہن میں ہے، میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں، پھر اصل مدعا کی طرف آتا ہوں۔
تنگ نظری سے مراد یہ ہے کہ انسان کا مطالعہ محدود ہو اور وہ اپنی سوچ وفکر سے باہر نکلنے کو ناجائز سمجھتا ہو، کنویں کا مینڈک بھی اسی کو کہتے ہیں کہ ساری دنیا کو اپنی طرح ایک پانی کے گڑھے میں بند سمجھتا ہو!!
مخالف کا موقف براہ راست اس سے سمجھنے کی بجائے اپنے الفاظ اس کے منہ میں ڈال کر اس کی تردید کا عادی ہو۔
تعصب میں اضافی معنی یہ پایا جاتا ہے کہ اپنی من پسند شخصیت یا چند شخصیات میں حق کو محصور سمجھے اور دیگر سب اہل علم کے مقابلے میں ان کو ہر حال میں انہیں درست ثابت کرنا اس کا ہدف اور نصب العین ہو۔
جمود کا مطلب ہے کہ انسان اپنے نظریات میں ٹس سے مس ہونے کو تیار نہ ہو، بھلا اس کے سامنے ہزاروں دلائل رکھ دیے جائیں، لیکن وہ اپنی غلطی پر اڑا اور جما رہے!!
اسی قسم کے رویوں کے لیے ’فرقہ ورایت’ کا لفظ یا اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے۔
جو شخص اس قسم کی نفسیاتی اور نظریاتی خامیوں اور کمزوریوں کے اندر مبتلا ہے، یقینا اس میں عدل و انصاف، حسن اخلاق، سچ جھوٹ جیسے کئی ایک اسلامی اوامر و نواہی کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے۔ طبیعت میں منفیت غالب اور مثبت سوچ نہ ہونے کے برابر رہ جاتی ہے!
یہ ایک مختصر سا تعارف ہے، اس سوچ و فکر کا، جسے ہم ایک منفی اور مذموم طرز عمل کے طور پر لیتے ہیں۔
لیکن یہ خامیاں کہاں کہاں پائی جاتی ہیں؟
اس حوالے سے ایک تو وہ پرانا اور گھسا پھٹا بیانیہ ہے، جسے چند دہائیوں سے دہرایا جا رہا ہے کہ یہ خامیاں صرف مسالک و مکاتب فکر سے منسلک لوگوں میں ہی پائی جاتی ہیں۔ بلکہ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ ہر وہ شخص کسی بہی فرقے یا مسلک سے جڑا ہوا ہے، یہ ممکن نہیں کہ و تنگ نظر اور متعصب نہ ہو۔ بعض مفکرین یہاں الا ماشاء اللہ سے کچھ استثناء دے دیتے ہیں۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ تعصب و تنگ نظری اور اپنی آراء پر جمود و ہٹ دھرمی جس قدر مسالک و مکاتب فکر سے منسلک لوگوں میں پائی جاتی ہے، اسی مقدار و تعداد میں یہ مذموم روش ان افکار و نظریات کے حاملین میں بھی پائی جاتی ہے، جن کا مسالک اور فرقوں سے کوئی تعلق نہیں۔
مثلا ایک اہل حدیث، بریلوی، دیوبندی فرقہ پرست جس قسم کے عزائم اپنے مخالفین کے لیے رکھتا ہے، اسی طرح مولانا مودودی یا ڈاکٹر اسرار صاحب یا غامدی صاحب اور ان کے فالوورز میں زہر اپنے مخالفین کے لیے پایا جاتا ہے۔
ایک مودودی سو یہودی والا مذموم جملہ سب کو یاد ہے، لیکن جماعت اسلامی کے بڑے بڑے سمجھدار قسم کے لوگ جس طرح شیوخ الحدیث اور مفسرین قرآن اور علمائے کرام کو ’چندہ خور’، ’علمائے حیض و نفاس’ دو رکعت کے امام’ ’ریالی مولوی’ اور فحش گالیاں دیتے ہیں، یہ بھی سب کی نظر میں ہونا چاہیے۔
اگر علمائے کرام یہ کہتے ہیں کہ جاوید غامدی صاحب ایک گمراہ شخصیت ہیں لہذا ان کے لٹریچر سے دور رہیں، تو خود غامدی صاحب مدارس کے نصاب تعلیم اور درس نظامی سے متعلق یہ کہتے ہیں کہ اس کی جگہ اب درسگاہیں نہیں، بلکہ کسی میوزیم میں مقبرہ بنا کر اسے دفن کر دینا چاہیے!!
آپ دور نہ جائیں ایک جملہ ہے:
اوئے مولوی! اوئے ملے! ان ملوں نے دین کا بیڑہ غرق کیا ہے!!
جیسے جملے آپ کن لوگوں کی زبان سے سنتے ہیں؟ کیا اس قسم کے دانشور یا مفکرین حضرات کسی سے یہ شکوہ کرنے میں حق بجانب ہیں کہ فرقہ پرست لوگ تمیز سے بات نہیں کرتے؟!
اور تو اور، آپ عصر حاضر کے دجال محمد علی مرزا کو لے لیں، اس کی سب سے بڑی بنیاد یہ ہے کہ میں نے فرقہ واریت کا خاتمہ کرنا ہے، اور مولویوں نے لوگوں کو گمراہ کیا ہوا ہے، میں نے ان کو ہدایت کی طرف لے کر آنا ہے، لیکن اس کی تقریریں، باڈی لینگوئج، ایجاد کردہ نعرے اور سلوگن اور تقریروں/ تحریروں کے نیچے اس کے فالوورز کی زبان چیک کریں، آپ کو اندازہ ہوگا کہ فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے ایسے ایسے نمونے معرض وجود میں آ رہے ہیں، جو بذات خود سراپائے شر اور معاشرے میں صفائی کے نام پر گند پھیلانے میں مصروف ہیں!!
لہذا میرے خیال میں اب ہمیں وہی پرانی اور رٹی رٹائی باتوں سے آگے بڑھ کے ان چیزوں کو مزید قریب سے ہو کر دیکھنے کی ضرورت ہے کہ جس چیز کو ہم فرقہ واریت، تنگ ذہنیت، تعصب اور جمود کہتے ہیں اور جن لوگوں کو ہم سمجھتے ہیں کہ وہ کنویں کے مینڈک ہیں، اس کے متعلق وہی ۤزبان زد عام طعنوں کو ایک مختلف انداز میں پیش کر دینا شاید یہ مسائل کا حل نہیں ہے بلکہ ہمیں اب باقاعدہ ان چیزوں کو اعداد و شمار کے انداز میں بھی دیکھنا پڑے گا۔
کہ مسالک اور مکاتب فکر سے متعلق کتنے فیصد لوگ ہیں جن کے علم و تحقیق میں مثبت رویے ہیں اور کتنے فیصد لوگ ہیں کہ جو ابھی تک منفی روش پہ گامزن ہیں
اسی طرح وہ لوگ جو مسالک سے ہٹ کے سکالرز کے پیروکار ہیں مثلا مودودی صاحب ڈاکٹر اسرار صاحب اور مرزا انجینئر کو بھی شمار کرلیں (اگرچہ وہ کسی بھی طرح سکالر تو نہیں ہے) اس میں ہمیں فیکٹس اینڈ فیگرز کی روشنی میں بات کرنی چاہیے.
یہ ایک عمومی سا بیانیہ رکھ دینا کہ جو مدارس میں پڑھے ہوئے ہوتے ہیں ان کا ذہن بڑا تنگ ہوتا ہے وہ دوسروں کو مانتے نہیں ہیں یہ میرے خیال میں مسئلے کا حل نہیں ہے، بلکہ ایک متعصبانہ حرکت تصور کی جائے گی جو کوئی بھي شخص اپنے مخالف کو زیر کرنے کے لیے سر انجام دینے کی کوشش کرتا ہے۔
بہر صورت کوئی بھی شخص اس کا تعلق کسی فرقے سے ہے، یا جماعت سے یا وہ کسی تنظیم کے ساتھ منسلک ہے، یا وہ کسی سوچ و فکر کی حامل کسی شخصیت کے ساتھ جڑا ہوا ہے، شریعت کے رہنما اصول سب کے لیے ایک ہیں، جن کی روشنی میں ہم سب اپنا اپنا جائزہ لے سکتے ہیں۔
1۔کونوا قوامین بالقسط شہداء للہ ولو علی أنفسکم
2۔ لایجرمنکم شنآن قوم علی ألا تعدلوا
3۔ وتعاونوا علی البر والتقوی ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان
حق کا پرچار کرو اور اس کے حمایتی اور گواہ بنو بھلا وہ تمہارے خلاف ہی کیوں نہ ہو، جبکہ کسی بھی فرد، مسلک، جماعت سے دشمنی کو عدل و انصاف کے رستے میں رکاوٹ نہ بننے دو! نیکی اور اچھے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کرو اور برائی اور زیادتی میں کسی کا ہاتھ نہ بٹاؤ!
اللہ تعالی ہم سب کو توفیق عطا فرمائے۔

#خیال_خاطر