الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على رسوله الأمين و على آله وصحبه أجمعين، اما بعد :
توہینِ مذہب کا مسئلہ اس زمانے میں بارہا اٹھا، کبھی مغرب اور اس کے گماشتوں نے آزادئ اظہار کے نام پر مسلمانوں کے جذبات مجروح کئے تو کہیں نام نہاد مسلمانوں نے آزادی اظہار کا غلط استعمال کرتے ہوئے معاشرے میں ہیجان خیزی پیدا کی اور اسلام کی بدنامی کا سبب بنے.
حکومت وقت کا فریضہ ہے کہ ان دونوں انتہاؤں کی روک تھام کے لئے جو قوانین موجود ہیں ان کے مطابق جن پر یہ جرم ثابت ہو جائے اسے فی الفور قرار واقعی سزا دینے کے ساتھ میڈیا پر اس کی تشہیر کی جائے. ایسے افسوسناک واقعات کے بعد ہونا یہ چاہیے کہ توہین کے مرتکبین کو قانونی دائرہ میں لا کر قرار واقعی سزا دی جائے مگر بصد افسوس دیکھنے میں آیا ہے کہ ایسے لوگوں کو باقاعدہ پروٹوکول سے نوازا جاتا اور ان کے لیے نرم گوشہ رکھا جاتا ہے جس کی وجہ سے عوام کا اداروں پر سے اعتماد اٹھ جاتا ہے اور وہ قانون ہاتھ میں لے لیتے ہیں.
14 اپریل کو جس خاتون نے فیصل آباد میں نبوت کا دعویٰ کیا اور اس کی بہن نے سوشل میڈیا پر اس کی تشہیر کی ہے تاحال انہیں گرفتار کرنے کے باوجود کوئی بھی قانونی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی ہے. ایسے ہی مشہور یوٹیوبر محمد علی مرزا جو آئے روز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور ائمہ دین کے خلاف نہایت شرمناک زبان استعمال کرتا اور طنزیہ لب و لہجے میں سب کی توہین کرتا ہے اشتہاری ہونے کے باوجود نہ صرف آزادانہ نقل و حرکت کررہا ہے بلکہ اپنی ان ناشائستہ سرگرمیوں کو بھی جاری رکھے ہوئے ہے جن کی وجہ سے معاشرے میں فرقہ واریت پھلیتی اور بےچینی جنم لیتی ہے.
ایسے ہی اقلیتی برادری احمدیوں کو آئین پاکستان کی ان شقوں کا پابند کیا جائے جو پارلیمنٹ میں متفقہ طور پر منظور ہو چکی ہیں جیسا کہ وہ اپنی عبادت گاہ کو نہ مسجد کے نام سے موسوم کر سکتے ہیں اور نہ ہی مسجد پر مینار یا گنبد بنا سکتے ہیں. ان کو آئین پاکستان کا پابند نہ کرنا جہاں ایک بڑی کوتاہی ہے وہیں لوگوں میں اشتعال کا باعث بھی.
اس کوتاہی اور عدم مؤاخذه کا نتیجہ پھر یہ نکلتا ہے کہ ردِ عمل کے طور پر عام لوگ عدالت عظمیٰ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مایوس ہوکر قانون ہاتھ لے لیتے ہیں.
حکومت وقت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چاہیے کہ اگر کوئی قانون ہاتھ میں لے کر از خود کسی کو سزا دیتا ہے تو اسے گرفتار کرکے مکمل تفتیش کی جائے اور اگر دورانِ تحقیق یہ ثابت ہو جائے کہ یہ واقعہ کسی ذاتی دشمنی یا مخاصمت کے نتیجے میں الزام تراشی ہے تو اسے فی الفور قرار واقعی سزا دے کر نشانِ عبرت بنایا جائے.
اسی طرح علماء کرام کو بھی چاہیے کہ اپنے دروس اور خطبات میں لوگوں کو اس مسئلے کی اہمیت سے آگاہ کریں اور ان کی اس انداز سے تربيت کریں کہ انہیں توہین مذہب کی سنگینی کا احساس ہو. نیز لوگوں کی کو یہ بھی سمجھائیں کہ قانون خود ہاتھ میں لینے کی بجائے ان معاملات میں قانونی طریقہ اختیار کیا جائے.

حافظ عبد العزيز آزاد