رمضان میں کئی ایک مساجد میں ایسے واقعات ہوتے ہیں کہ امام صاحب کی غلطی نکالنے/ نہ نکالنے پر فتنہ و فساد پیدا ہوجاتا ہے۔
حالانکہ اگر امام، سامع اور مقتدی ہر تین طرح کے لوگ اس مسئلے پر قابو پانا چاہیں، تو یہ معاملہ کنٹرول ہوسکتا ہے۔
1۔ امام صاحب پارہ اچھی طرح یاد کریں، تاکہ ان کی غلطی نہ آسکے، مقتدیوں کو سامنے رکھتے ہوئے نہیں، بلکہ یہ سوچ کر کہ یہ اللہ رب العالمین کے کلام کی تعظیم و توقیر کا تقاضا ہے۔ اور ظاہر ہے اس سے ان کی نیک نامی بھی ہوگی۔
لیکن پھر بھی اگر غلطی آجائے، تو اس کو کھلے دل سے تسلیم کریں، اور اسے اپنی عزت بے عزتی کا مسئلہ نہ بنائیں۔
کون انسان ہے جس سے غلطی نہیں ہوتی؟ اور اگر ثواب کی امید اللہ تعالی سے ہے، تو وہ آپ کو غلطی کے باوجود بھی مل جانا ہے، ان شاءاللہ !
لا یکلف اللہ نفسا إلا وسعہا.
2۔ سامع کو بھی اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیے، کیونکہ وہ بیک وقت قاری صاحب کے لیے معاون بھی ہوتا ہے، اور مقتدیوں کا اس پر اعتماد بھی ہوتا ہے۔ لہذا اپنی اس ذمہ داری کو اس طرح نبھائے کہ وہ قاری صاحب کی غلطیوں پر خاموش بھی نہ رہے، اور انہیں بلا وجہ تنگ بھی نہ کرے۔ سامع جب غلطیوں پر خاموش رہتا ہے، تو پھر دیگر لوگوں کو بولنے کا موقعہ ملتا ہے۔
3۔ قاری اور سامع ہر دو سے کوئی غلطی رہ گئی ہے، تو کسی بھی شخص کی طرف سے لقمہ دے دینے میں حرج نہیں، لیکن عموما دیکھا گیا ہے کہ اس طرح کی حرکت فتنہ و فساد کا باعث زیادہ بنتی ہے۔ اور اگر قاری صاحب اور سامع مضبوط ہیں، تو یہ بھی عین ممکن ہے کہ غلطی قاری/ سامع کی نہ ہو، بلکہ اس تیسرے شخص کی ہو۔
بہرصورت اس تیسرے کردار کو بھی نیت کو ٹٹولنے کی ضرورت ہے، کہ سامع کے باوجود وہ کیوں بولنا چاہتا ہے؟ اور کیا اس کے اس بولنے سے اصلاح ہوگی یا فساد؟ سامع جس نے بالخصوص ہاتھ میں قرآن کریم بھی پکڑا ہوا ہے، اگر وہ کسی جگہ پر خاموش ہے، تو ہوسکتا ہے کہ اس کی کوئی معقول وجہ ہو، جو دیگر لوگوں کے دماغ میں وقتی طور پر نہ آرہی ہو..!!
میرا ذاتی رجحان اس معاملے میں مختلف ہے، پیچھے سے جو مرضی بولتا رہے، میں نے کبھی برا محسوس نہیں کیا۔ لیکن سننے/ دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض قراء کرام اس کو بہت برا محسوس کرتے ہیں، بلکہ اس وجہ سے وہ پڑھتے پڑھتے زیادہ پزل ہوجاتے ہیں۔ لہذا ایسی صورت میں مقتدیوں کو چاہیے کہ قاری اور سامع پر اعتماد کریں، اور ضرورت محسوس کریں تو بعد میں الگ سے مل کر ڈسکس کرلیں۔
بہت افسوس ہوتا ہے یہ دیکھ کر کہ معاشرے کے چند فیصد لوگ ہیں، جو مساجد میں آتے ہیں، لیکن وہ چند فیصد بھی بہانے بہانے سے اور موقعہ بہ موقعہ لڑائی جھگڑا، توتکار، اور خلفشار کا شکار رہتے ہیں۔ گویا شیطان اکثریت کو مساجد سے دور رکھتا ہے، اور جنہیں نہیں کرپاتا، انہیں مساجد میں بھی عبادات پر توجہ دینے کی بجائے ذاتیات اور لڑائی جھگڑے میں الجھا دیتا ہے۔ قاری صاحب نے یہ کیوں کیا؟ یہ لائٹ کیوں چلی/بند ہے؟ اسپیکر کی سیٹنگ ایسی کیوں ہے؟ نماز مختصر/ لمبی تھی، رکوع و سجود ایسے ہونے چاہییں…!! بالکل لایعنی قسم کی باتوں پر مساجد کو میدان جنگ بنالیا جاتا ہے۔ حق و باطل کے لیے لڑنے والے ان ’مجاہدین’ کو چاہیے، فسلطین/ برما/ کشمیر جیسے میدانوں کا رخ کریں، وہاں اس جوش و جذبے کی زیادہ ضرورت ہے..!!
#خیال_خاطر