بہت سے قابلِ رحم اور بیمار ذہنیت والے لوگ دیکھے ہیں مگر مجھے جو قابلِ ترس اور نہایت ذہنی افلاس میں مبتلا لوگ لگے وہ ” عہدوں کے رسیا ہیں “. نظریاتی اعتبار سے یہ احباب مفلس و قلّاش اور فکری لحاظ سے نہایت بودے واقع ہوتے ہیں.

حريمِ ادب میں کس درجہ بے ادب نکلا
جسے نجیب سمجھتے تھے کم نسب نکلا

ان کی پہیم سعی اور جدو جہد کا خلاصہ اگھاڑ پچھاڑ اور شور شرابے سے تعبیر کیا جاسکتا ہے…عہدے اور جاہ و منصب کے حصول کے لیے یہ حضرات رقیب کے در پہ سر کے بَل چلنے کو بھی آمادہ و تیار نظر آتے ہیں.

فيا للمصيبة و يا للرزية.

آہ فآہ ثم آہ اس مرض نے مریضوں کے ساتھ ساتھ تنظیموں، جماعتوں اور اداروں کا بھی بیڑہ غرق کردیا ہے. تربیت کی کمی کہیے یا امراء کی سیاست گری کا کرشمہ مگر سچ تو یہ ہے کہ ان نابغوں کے ہاتھوں عزتِ سادات تک محفوظ نہیں ہے. رہا قائدین کا مسئلہ تو وہ اکبر کے اس شعر کے مصداق ہیں :

قوم کے غم میں ڈنر کھاتے ہیں حکام کے ساتھ
رنج لیڈر کو بہت ہے مگر آرام کے ساتھ

ایسے وقت میں کچھ حضرات جب اصلاح کے لیے میدان عمل میں اترتے ہیں تو بجائے اس کے کہ نئی قیادت ان چلے ہوئے کارتوسوں سے جان چھڑائیں وہ انہیں کو ماتھے کا جھومر، گلے کا ہار اور سر کی دستار بنا کر واہ واہ مبارک، سلامت کے چکر میں الجھ کر مقصدِ حقیقی سے غافل ہو جاتے ہیں.
جہاں تک مجھے سمجھ آتی ہے یہ گروہ نہایت چالاک اور عیار ہے جو بدلتی ہواؤں کے رخ دیکھتے ہوئے اڑان بھرنے کا فیصلہ کرتے ہیں…پہلے لوگ توڑے جاتے ہیں پھر اس کے بعد مظلومیت طاری کرتے ہوئے الوداع کا نعرہ مستانہ لگاتے ہوئے رخصت چاہتے ہیں.
عزیزانِ غفلت شعار! اصل مسئلہ ” عہدوں کے رسیا ” نہیں بلکہ قائدینِ کرام ہیں جو اپنی ذات کے حصار میں اس درجہ مقید ہو چکے ہیں اور ان کا یہ ذہن بنا دیا گیا ہے کہ تمام مذہبی و سیاسی مسائل کا حل حضور پرنور کے پاس ہے.
اب جن چاپلوسوں اور خوشامدیوں نے حضور پرنور کا یہ مزاج بنایا ہوتا ہے وہ کب اور کیوں صحیح بات کرتے ہوئے عوامی نمائندگی کا حق ادا کریں گے؟
اس لیے ان کی تربیت کی بجائے پہلے قائدین کی تربیت کی جانi چاہئے تاکہ انہیں حقیقی اور مصنوعی قائد کا فرق سمجھ آئے اور وہ حقیقی قائد بن کر اپنی ذمہ داریاں ادا کر سکیں.

حالِ دل : حافظ عبد العزيز آزاد