میری ہمیشہ کوشش رہی کہ سوشل میڈیا سے ممکنہ طور پر دور رہا جائے :
یہاں رکھنا قدم تم بھی سنبھل کر شیخ جی کیوں کر
یہاں پگڑی اچھلتی ہے اسے مے خانہ کہتے ہیں

جدّت سے استفادہ کرنے اور ہمکنار ہونے کے لیے اس مصیبت سے جڑے رہنا جہاں وقت کا ضیاع ہے وہیں تعلقات کی خرابی بھی…عجیب وحشت سی ہے…بنا سبب بار بار موبائل دیکھنا پڑتا ہے اور سکرین کا روشن ہونا پریشانی کا باعث کہ اسی وقت سارے کام چھوڑ کر اسے کا ہوکر رہنا پڑتا ہے.
جہاں دیگر قباحتیں دیکھنے میں آئیں ہیں وہیں ایک الجھن یہ بھی رونما ہوئی کہ واٹس ایپ گروپس میں پڑھے لکھے لوگوں کی شائستگی کا بھرم قائم نہیں رہتا اور جہاں کسی سے اختلاف ہوا بد اخلاقی کا عالمی مقابلہ شروع ہو جاتا ہے اور بھونڈے انداز میں اس کے لتّے لینے شروع کر دیے جاتے ہیں …ایڈمن صاحبان اور ان کے پینل کو اللہ جزائے خیر عطا فرمائے مل جل کر فریقِ مخالف کو ایسے رگیدتے ہیں کہ اس بیچارے کے عند اللہ مأجور ہونے کا یقین سا آ جاتا ہے…قواعد و ضوابط کی فہرست یوں تھمائی جاتی ہے گویا ان قوانین پہ عمل کرنے میں دین و دنیا کی سرخروئی اور آخرت کی کامیابی و کامرانی ہے…قواعد و ضوابط کی حقیقت بھی صرف اتنی سی ہے کہ جسے بے عزت کرنا یا نکالنا ہو تو قواعد کا بگل بجا دیا. جبکہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ذمہ داران بذات خود قانون شکنی کے نہ صرف مرتکب پائے جاتے ہیں بلکہ اس قانون شکنی پر داد و دہش سمیٹنے کے متمنی و خواہشمند ہوتے ہیں… پس پھر مریدانِ باصفا کی پھرتیاں دیکھیں اور ان کی دلیلیں سنیں …فقیر نے چونکہ ہمیشہ خلوت کو جلوت پر ترجیح دی اور حلقہ احباب مختصر ترین رکھا ہوا ہے اس لیے چند ایک گروپس میں شمولیت کے باوجود ہمیشہ تبصروں سے گریز ہی کیا کیونکہ عزتِ نفس بہرکیف ہر ایک کے لیے اہم ہوا کرتی ہے اور ویسے بھی جہاں انصاف کا معیار دوہرا ہو وہاں خیر ندارد…
ایک گروپ میں کسی کی خواہش پر شرکت کی…صاحب کے علمی معاملات میں جہاں تک ہوسکا تعاون بھی کیا…اچانک اس گروپ میں قادیانی خیالات کا پرچار ہونے لگا…کچھ دیر خاموشی اختیار کی کہ آپس میں تتّر بٹیر اور سیل مرغوں کی طرح لڑنے والے اس اہم مسئلے میں تلواریں میان سے نکالیں گے مگر :
اے بسا آرزو کہ خاک شُد
کے مصداق خاموشی کے لمبے سائے اور گہرے بادل…جب میں نے کچھ کہا تو قادیانیت کی حمایت کرنے والے صاحب برس پڑے…ایڈمن صاحب نے پرسنل میں رابطہ کیا اور فرمایا کہ یہ صاحب قادیانی ہیں اور مجھے ان سے کچھ مفادات سمیٹنے ہیں لہٰذا آپ کو یہاں سے روانہ کیا جاتا ہے …پھر دین اسلام کے اس مجاہدِ اعظم نے صدارتی اختیارات کا خصوصی استعمال کرتے ہوئے مجھے اس مجموعے سے نکال باہر کیا…گویا :

سوداؔ قمار عشق میں شیریں سے کوہ کن
بازی اگرچہ پا نہ سکا سر تو کھو سکا

کس منہ سے پھر تو آپ کو کہتا ہے عشق باز
اے رو سیاہ تجھ سے تو یہ بھی نہ ہو سکا

بہرحال قصہ مآلِ غم جو انگلیوں پہ گنے جانے والے مجموعے ہیں آج سے ان سے جان چھڑوانے کا عمل جاری ہوا چاہتا ہے. والسلام.

 حافظ عبد العزيز آزاد