وہ میرے وطن کے دلاور اور دلیر نوجوان جو اس وطن کی حرمت اور تقدس پر اپنی جانیں نچھاور کر گئے، وہ جو چھمب، دیوا اور رَن کَچھ کے فاتح تھے، وہ جو جوڑیاں کے شیر تھے، ان کی جاں نثاری اور جاں سپاری سے بھارت کا اتنا اسلحہ، مالِ غنیمت میں ملا تھا کہ ایک ڈویژن فوج کو مسلح کیا جا سکتا تھا اور ایک بکتر بند رجمنٹ تیار کی جا سکتی تھی، وہ جنھوں نے 1965 ء کی جنگ میں عدوئے ملتِ اسلامیہ کی گردن اس طرح مروڑ دی تھی کہ اس درد اور اذیت کے تلملاہٹ اور کلبلاہٹ ہمیشہ بھارت کی چھاتی میں گڑی رہے گی، بھارتی فوج کا احمق جنرل کے این چودھری 72 گھنٹوں میں پاکستان کو تاراج کرنے آیا تھا مگر پاکستانی غیرت مند سپوتوں نے بھارتی بھیڑ بکریوں کے تمام منصوبوں اور عزائم کو نیست و نابود کر کے دیا۔چھمب کے معرکے پر پاکستانی سپاہ کی جراَت اور شہامت کو دیکھتے ہوئے برطانوی اخبار ” ڈیلی مرر “ کے نامہ نگار ” برائن سچن “ نے لکھا تھا کہ ” جس ملک میں پاکستان جیسی فوج ہو، اسے شکست دینا آسان کام نہیں“ وہ کشمیری مجاہدین جنھوں نے 16 ستمبر کو راجوری کے علاقے میں بھارتی فوج کی پوری بٹالین کا صفایا کر دیا تھا، وہ جوڑیاں کا محاذ فتح کرنے والا میجر سرور شہید کہ جس نے اپنے سینے پر سترہ گولیاں کھا کر اپنا کلیجا چھلنی کروا لیا تھا، وہ جنھوں نے کارگل کے محاذ پر ہزاروں ہندو فوجیوں کو گھیرے میں لے لیا، انھوں نے اپنی جان، اپنا مال اور اپنا خون اس وطن کی حرمت پر قربان کر دیا تھا، ان سب کی شجاعت کی داستانیں ناقابلِ فراموش ہیں، انھوں نے دشمن کے قدم لرزا دیے، وہ دفاعِ وطن کے لیے شعلے اگلتی توپوں پر چڑھ گئے، وہ اپنے جسموں پر بم باندھ کر آگ برساتے اور چیختے چنگھاڑتے ٹینکوں کے نیچے لیٹ گئے، وہ اپنی جانیں قربان کر کے شہادت کے اعلا و ارفع مقام پر پہنچ گئے، وطن کو ان سب پر ناز ہے اور قوم ہمیشہ ان پر فخر کرتی رہے گی۔
پھر گیارہ ستمبر 2001 ء کے واقعے کے بعد ایسی بے مہر بادِ صرصر چلی کہ جس کے تند و تیز جھکّڑ ہمارے حکمرانوں کے تمام اصول و ضوابط کو بہا کر لے گئے، گیارہ ستمبر کی منحوس آندھی بڑی ہی بدتمیز اور ناہنجار تھی، ہمارے حکمرانوں نے خود سپردگی کی ہر ” ارفع منزل “ کو چُھو لیا۔صرف ایک ٹیلی فون کال نے سب کچھ جھلسا کر رکھ دیا، ہم مانتے ہیں کہ اپنے وطن کی حفاظت کے لیے اپنے جسموں سے بم باندھ کر دشمن کر ٹینکوں کے نیچے لیٹ جانے والے نوجوان ہمارے شہدا اور ہیرو ہیں مگر گیارہ ستمبر کے بعد جو نئی لغت ترتیب دی گئی اس کے مطابق ایسا کرنا خود کشی اور دہشت گردی قرار دے دیا گیا، ایسے ہر فعل کا عنوان بنیاد پرستی رکھ دیا گیا، 1965 ء کے وہ تمام شہدا اگر آج زندہ ہوتے تو انھیں ڈاکٹر عبد القدیر خان کی طرح قید میں ڈال دیا جاتا اور موت تک ان کی رہائی ہی ممکن نہ ہوتی، اس لیے کہ مغربی آقاؤں نے اپنے محسنوں کے ساتھ یہی سلوک روا رکھنے کا حکم دیا ہے، آج ہمارے حکمران، اسلام کی تشریح و تفسیر روشن خیالی اور جدت پسندی کے سانچے میں ڈھال کر کرنے لگے ہیں۔
ہمارے ایک سابق صدر نے اسلامی نظریاتی کونسل کے زیرِ اہتمام ایک ورک شاپ سے ” اسلامک کریمنل لا ان گلوبلائزنگ ورلڈ “ کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ” ہم آنکھیں بند کر کے مذہبی سکالرز کی تعلیمات پر عمل نہیں کر سکتے، اگر ایسا کیا تو ہم اندھیروں میں رہ جائیں گے “ سو یہ حکمران اندھیروں سے نکل کر ” روشن خیالی “ کی چکا چوند روشنیوں میں آ چکے ہیں۔ہم جب گریجویشن کر رہے تھے تب ہمارے پروفیسرز ہمیں یہی سمجھاتے تھے کہ مصطفیٰ کمال پاشا ایک عظیم مصلح تھا، جس نے عورتوں کے دوپٹے نوچ لیے، اس نے ترکی کو یورپی ڈگر پر چلایا، اس نے عورتوں کو مَردوں کے برابر حقوق اس طرح دیے کہ اگر عورت ایک ہی شادی کر سکتی ہے تو مَرد بھی ایک ہی شادی کرے گا، عورت اور مَرد دونوں کو طلاق دینے کا حق حاصل ہے، عورتوں کے مقدمات کا فیصلہ عورت جج کریں گی، مَرد اور عورت کے گھریلو جھگڑوں کا فیصلہ کرنے کے لیے دو جج ایک مرد اور ایک عورت ہو گی۔یہی وہ آزادی تھی جو مصطفیٰ کمال پاشا نے عورتوں کو دی، ہمارے کالج کے اساتذہ ان تمام فضولیات اور لغویات کو اصلاحات کا نام دے کر اسلام کا استہزا کرتے تھے اور وہ مصطفیٰ کمال پاشا کو ” دی گریٹ ریفارمر “ کے اعزاز و القاب سے نوازتے تھے، اب ترکی کے لوگ ان ” اصلاحات “ سے تنگ آ کر دوبارہ اسلام کی طرف لوٹ چکے ہیں مگر ہمارے بہت سارے دانش ور آج بھی برقع کو دقیانوسیت سمجھتے ہیں، وہ بسنت، ویلنٹائن ڈے اور نیو ائیر نائٹ جیسی تقریبات کے حامی ہیں۔ہمارے یہی ” دانا و بینا “ لوگ کہتے ہیں کہ ” اپنی سوچ کو دوسروں پر مسلط کرنا انتہا پسندی ہے “ ہمیں خوشی ہے کہ انتہا پسندی کی کوئی تو تعریف متعین کی گئی۔اگر اپنی سوچ کو دوسروں پر ٹھونسنا انتہا پسندی ہے تو پھر برقع اور حجاب پہننے والی خواتین پر کیوں اپنی مکروہ سوچ مسلط کی جاتی ہے؟ اس لیے کہ برقع بھی تو عورتیں اپنی مرضی سے پہنتی ہیں۔ بے حجاب اور ” روشن خیال “ عورتوں کے جسم پر اب لباس رہ ہی کتنا گیا ہے؟ پہلے عورتیں چھے میٹر کپڑے میں لباس سلواتی تھیں، ڈھائی میٹر کا دوپٹّا الگ ہوتا تھا، اب فقط تین سے چار میٹر کپڑے میں لباس تیار ہو جاتا ہے، باقی کپڑا کہاں گیا؟ یقیناً روشن خیالی کی نذر ہو گیا، عورتوں کے جسم پر یہ تین چار میٹر کپڑا بھی کچھ عاقبت نااندیشوں کو گوارا نہیں۔
وہ چھے ستمبر کے تمام شہدا اگر آج زندہ ہوتے تو انھیں بھی انتہا پسند کہا جانا تھا، انھیں بھی دہشت گرد ہی سمجھا جانا تھا، اس لیے کہ ڈاکٹر عبد القدیر خان سے بڑا محسن تو ہمارا کوئی نہیں، اسے بھی وقتِ مرگ تک قید کی اذیتوں میں ہی مبتلا رکھا گیا۔یومِ دفاع کا اصل تقاضا یہ ہے کہ جس شجاعت اور بہادری کا مظاہرہ کر کے ہم جنگ جیتے تھے، ان پر انتہا پسندی کی جو چھاپ لگا دی گئی ہے، اسے ختم کر کے جہاد فی سبیل اللہ ہی کو قوم کا شعار بنایا جائے۔

( انگارے۔۔۔حیات عبداللہ )