انسان کو پورے شعور کے ساتھ جان لینا چاہیے کہ لوگوں کے ہاں دنیاوی علوم کی قدر ومنزلت جتنی مرضی بیٹھ چکی ہو، پھر بھی یہ افضل و بہترین علوم نہیں ہیں۔ کیوں کہ اللہ تعالی نے اپنے افضل ترین بندوں یعنی انبیاء کرام علیہم السلام کے لیے جو علوم چنے ہیں، ان میں نہ تو ان میں ریاضی ہے، نہ کیمسٹری، نہ فزکس اور نہ جیالوجی۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ان علوم کا تعلق ذہین لوگوں کے ساتھ ہے حالانکہ در حقیقت ذہین لوگوں کے علوم آسمان سے نازل ہونے والی وحی ہے، یہی ذہانت والوں کے علوم ہیں ۔ اس لیے یہ بات کہنے میں کوئی باک نہیں ہونی چاہیے کہ قرآن و سنت کے علوم ومعارف وہ ہیں کہ جن تک دنیاوی علوم کے ماہرین کی پہنچ بھی نہیں۔
قرآن مجید کی ایک آیت، آیتِ طہارت کے متعلق ابن العربی رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر اس کا مذاکرہ کیا تو صرف اس ایک آیت سے ساڑھے آٹھ سو مسائل اخذ کیے۔ یہ کس قدر ذہانت و فطانت کی دلیل ہے۔ بلکہ امام ابن قیم رحمہ اللہ ’’الجواب الکافی‘‘ میں فرماتے ہیں کہ سورہ یوسف میں ایک ہزار سے بھی زیادہ فوائد ہیں۔ اب آپ کوئی ڈاکٹر، کیمسٹ، فیزسٹ لائیں اور ان سے پوچھیں کہ آپ کے نزدیک اپنے علم کی کتاب زیادہ تعظیم والی ہے یا قرآن؟ یقیناً مسلمان کا جواب ہو گا کہ قرآن۔ پھر ان سے کہیں کہ یہ سورہ فاتحہ ہے، براہ کرم اس سے صرف دو سو فوائد کا استخراج و استنباط کر کے دیکھا دیں۔ یقین کریں کہ اُن سے ایسا نہیں ہو سکے گا۔ اس لیے یاد رکھیں کہ انبیاء کے علوم ہی در حقیقت ذہین و فطین لوگوں کے علوم ہیں۔

درحقیقت ذہین لوگوں کے علوم آسمان سے نازل  ہونے والی وحی ہے.اور ظاہر سی بات ہے کہ یہ وحی حقیقت کے مطابق زندگی گزارنے اور بہترین زندگی گزارنے کا لائحہ عمل ہے اور اس کو ہم نے حکمت سے تعبیر کیا ہے اور رہی ذہانت تو ظاہر ہے سائنسی علوم پڑھنے والے ذہین ہوتے ہیں یعنی ان میں مہارت رکھنے والے لیکن یہ ذہانت کوئی باحیثیت چیز نہیں کہ دین علوم کے ماہرین سے اس کا تقابل کیا جائے۔

(مستفاد من كلام الشيخ الحبيب العصيمي حفظه الله، علوم الأنبياء…علوم الأذكياء)

حافظ محمد طاہر