میاں بیوی کے باہمی حسنِ معاشرت کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ ان کے آپس میں تخاطب کے الفاظ احترام و توقیر پر مبنی ہوں۔
⇚اللہ تعالی نے عزیز مصر کا بطور خاوند ذکر کرتے ہوئے اسے بیوی کا سردار کہا ۔ (سورہ یوسف : 25)
⇚سیدہ ام الدرداء رضی اللہ عنہا اپنے خاوند سے ایک حدیث بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں : مجھے میرے سرتاج نے بیان کیا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا۔۔۔۔ (صحیح مسلم : 2732)
⇚حافظ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ام الدرداء رضی اللہ عنہا کی یہاں سردار سے مراد ان کے خاوند ابو الدرداء ہیں، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بیوی اپنے خاوند کو اپنا سرتاج/سردار کہہ سکتی ہے ۔ (شرح مسلم تحت حدیث : 17/ 50)
⇚سعید بن مسیب رحمہ اللہ کی اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ ’’ہم اپنے خاوندوں کے ساتھ اس طرح تعظیم واحترام سے بات کیا کرتی تھیں جیسے تم اپنے امراء و حکام سے بات کرتے ہو۔‘‘ (حلیۃ الاولیاء : 5/ 168)
بلکہ بعض علماء نے عورت کے لیے اپنے خاوند کا نام لے کر پکارنے کو مکروہ قرار دیا ہے۔
⇚جیسا کہ معروف حنفی عالم علامہ علاء الدین حصکفی علیہ الرحمہ نے نقل کیا ہے :
يكره أن يدعو الرجل أباه وأن تدعو المرأة زوجها باسمه.
’’آدمی کا اپنے والد کو اور عورت کا اپنے خاوند کو نام لے کر بلانا مکروہ ہے۔‘‘ (الدر المختار : 1/ 666)
⇚علامہ ابن عابدين حنفی فرماتے ہیں :
لَابُدَّ مِن لَفْظٍ يُفِيدُ التَّعْظِيمَ كَيا سَيِّدِي.
’’یعنی انہیں چاہیے کہ (بیٹا اپنے والد اور بیوی اپنے خاوند کے لیے) ایسا لفظ استعمال کرے، جس میں احترام و تعظیم ہو جیسے کہ اے میرے سردار۔‘‘
(حاشیہ ابن عابدین علی الدر المختار : 6/ 418)
ہماری مشرقی روایات میں اکثر خواتین اپنے خاوند کا نام لینے کی بجائے مختلف کنایے و اشارے استعمال کرتی ہیں جو کہ ایک بہترین اور خوبصورت روایت ہے ۔
✿ اسی طرح اگر خاوند بھی اپنی بیوی کے لیے بطورِ تعظیم و احترام جمع کا صیغہ جیسے اردو میں تو، تم کی بجائے ’’آپ‘‘ وغیرہ استعمال کرے تو یہ بھی درست ہے اور بہت اچھا ہے، اس کی اصل قرآن مجید میں بھی ملتی ہے۔
⇚ سیدنا موسی علیہ السلام جب اپنی اہلیہ کے ساتھ سفر میں تھے تو انہیں مخاطب کرتے ہوئے جمع مخاطب کا صیغہ استعمال کرتے ہوئے فرمایا :
’’امكثوا‘‘ آپ ذرا ادھر ہی رکیں ۔ (سورہ القصص : 29)
⇚بعض علماء کے مطابق موسی علیہ السلام نے یہاں اپنی اہلیہ کے لیے بطورِ احترام و تعظیم جمع کا صیغہ استعمال کیا ۔ (دفع ایھام الاضطراب للشنقيطي، ص : 247)
⇚اسی طرح عربی کا ایک شعر ہے :
فإن شئتُ حرمتُ النساءَ سواكم … وإن شئتُ لم أطعم نقاخًا ولا بَرْدًا.
جیسا کہ ظاہر ہے کہ اس میں بھی شاعر نے اپنی محبوبہ کے لیے جمع کا صیغہ استعمال کیا ہے ۔
✿ البتہ یہ یاد رہنا چاہیے کہ اگرچہ یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں کہ جس میں کوئی ثواب و عقاب کا معاملہ ہو، یعنی ایسا ہرگز نہیں کہ اگر بیوی اپنے خاوند کو نام سے پکار لے یا واحد کے صیغے سے مخاطب کر لے تو کوئی گناہ ہو گا، لیکن یہ آداب عامہ میں سے ضرور ہے، اگر الفاظ میں احترام ہو تو معاملات میں بھی احترام آ جاتا ہے، گفتگو کے سلیقے وادب کا خیال رکھا جائے تو تلخ کلامی و اختلاف و جھگڑے کی صورت میں بھی انسان حدود میں رہتا ہے ۔ و اللہ اعلم ۔

حافظ محمد طاھر