نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب اس دنیا سے رخصت ہوئے، تو آپ کی ازواجِ مطہرات کی تعداد نو تھی۔ اسی مناسبت سے امہات المؤمنین کے حجروں کی تعداد بھی نو ہے۔ جن کا ذکر قرآنِ کریم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے بھی وارد ہے، جیسا کہ فرمانِ الہی ہے:

{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ} [الأحزاب: 53]

’اے ایمان والو! نبی کے گھروں میں بلا اجازت داخل نہ ہو‘۔
اور امہات المؤمنین کی نسبت سے بھی مذکور ہے۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالی ہے:

{وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ} [الأحزاب: 33]

’اے نبی کی بیویو! تم اپنے گھروں میں ٹھہرو۔

حجروں کا حدودِ اربعہ:
امہات المؤمنین کے حجرے مسجد کی تین جانب واقع تھے۔ بعض مشرقی جانب تھے، جیسا کہ حجرۃ عائشہ رضی اللہ عنہا۔ سودہ رضی اللہ عنہا کا حجرہ بھی شمال مشرق کی طرف تھا، جس طرف بابِ جبریل ہے۔ حفصہ رضی اللہ عنہا کا حجرہ ، جنوب کی طرف تھا، جس طرف قبلہ ہے۔ اور یہ حجرہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ بھی متصل تھا۔ مسجد نبوی کے شمال کی جانب بھی بعض ازواجِ مطہرات کے حجرے تھے، جیسا کہ جویریہ، صفیہ، ام حبیبہ، میمونہ رضی اللہ عنہن۔ یہ مسجد نبوی سے متصل نہیں تھے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے شادی غزوہ خیبر کے بعد کی تھی، تب تک بعض صحابہ کرام وہاں اپنے گھر بنا چکے تھے، اس لیے بعد والے حجرے، ان گھروں کے بعد بنائے گئے تھے۔

حجرہ نبویہ:

حجرہ نبویہ سے مراد وہ گھر ہے، جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ رہا کرتے تھے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی کے آخری ایام اور لمحات اسی میں گزارے تھے، اور پھر یہی حجرہ آپ کا مدفن اور آرام گاہ قرار پایا، اس وجہ سے یہ بالخصوص ’حجرہ نبویہ‘ کے نام سے مشہور ہوا۔

خلفائے راشدین کے دور میں:

11ھ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کےبعد، عائشہ رضی اللہ عنہا نےکمرے میں ایک پردہ لٹکادیا، جو قبر کو اور بقیہ کمرے کو علیحدہ کرتا تھا۔ اگر کوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرِ مبارک دیکھنے کے لیے آتا تھا، تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اجازت لے کر، ان کے گھر سے ہی دیکھتا تھا، اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں تھا۔

13ھ میں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی، تو ان کو بھی یہیں دفن کیا گیا، لہذا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پردہ مزید پیچھے ہٹالیا۔ حجرہ میں مزید تبدیلی یہ ہوئی کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بحیثیت امیر المؤمنین حجرہ کی کھجور سے بنی چار دیواری کو کچی اینٹوں سے تعمیر کروا دیا۔

23ھ کو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شہادت کے بعد، اسی حجرہ میں دفن کیے گئے، تو پھر صرف پردہ لٹکانے پر اکتفا نہیں کیا گیا، بلکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے تینوں قبروں کے بعد ایک دیوار تعمیر کرلی، لیکن ایک طرف سے دیکھنے کے لیے جگہ چھوڑ دی، اور اس پر پردہ لٹکادیا۔ بعض تابعین کرام جب قبریں دیکھنے آتے، تو حضرت عائشہ اجازت دے دیتیں، تاکہ وہ عملی طور پر دیکھ لیں کہ قبریں بنانے کا مسنون طریقہ کار کیا ہے۔

ولید بن عبد الملک کا دور:
88ھ میں خلیفہ وقت ولید بن عبد الملک نے گورنرِ مدینہ عمر بن عبد العزیز کو جب مسجدِ نبوی کی توسیع کا حکم دیا، تو اس میں یہ بات بھی شامل تھی کہ ازواجِ مطہرات کے حجرے بھی مسجد نبوی میں شامل کردیے جائیں۔ جبکہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا حجرہ، جس میں قبریں تھیں، اس کی کچی دیواریں ختم کرکے، ان کی جگہ سیاہ پتھروں سے نئی چار دیواری کردی گئی، اور چھت بھی لکڑی کی بنا دی گئی۔ اور چاروں طرف سے اسے مکمل بند کردیا گیا، کوئی دروازہ ، کھڑکی یا روشن دان وغیرہ نہیں رکھا گیا تھا۔
اس چار دیواری کے بعد مزید ایک اور دیوار بنوائی، جو کہ خماسی تھی، یعنی اس کی پانچ نکڑیں یا کونے تھے، کیونکہ اسے شمال کی جانب تکون کی طرح بڑھا دیا گیا تھا، تاکہ ایک تو حجرہ والی خالی جگہ پُر ہوجائے، اور دوسرا، کوئی قبروں کی طرف منہ کرکے نماز بھی نہ پڑھ سکے۔

881ھ میں سلطان قایتبائی کے دور میں حجرہ نبویہ کی تعمیرِ نو کی ضرورت محسوس کی گئی، کیونکہ مرورِ زمانہ کے سبب اس کی بعض دیواریں متاثر ہوچکی تھیں۔ چنانچہ جہاں سے محسوس کیا گیا، دیواروں کی ترمیم و اصلاح یا تجدید کی گئی، اور اوپر پہلے کی طرح سیدھی چھت ڈالنے کی بجائے، ایک گنبد تعمیر کردیا گیا۔

(بحوالہ: قبرِ مبارک، تاریخ و حقائق، اردو قالب: ابو حمدان حافظ خضر حیات)