عالم دین ہیں اور سوشل میڈیا پر کام کرنا چاہتے ہیں؟

آپ عالم دین ہیں اور انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر کام کرنا چاہتے ہیں، تو درج ذیل چیزوں پر توجہ کریں:
1۔ پیشکش
2۔ آن لائن (سپیس) جگہ بنائیں
3۔ سرچ انجنز سے دوستی

1۔ پیشکش: سوشل میڈیا پر دینی بات کرنے اور اس کی پیشکش کا طریقہ کار سمجھیں! تحریر، تقریر، تدریس وغیرہ ان سب کا طریقہ سوشل میڈیا کے لیے مختلف ہے!
2۔ آن لائن (سپیس) جگہ: آپ کی جتنی تعلیمی و دعوتی سرگرمیاں ہیں، انہیں اس طرح منظم و مرتب کریں کہ دلچسپی رکھنے والا ان سب کو ایک جگہ ملاحظہ کر سکے!
مثلا آپ ابھی تک سو آرٹیکلز لکھ چکے ہیں، تو وہ کدھر سے ملیں گے؟ آپ نے دو سو اسلامک گرافکس بنائے ہیں، وہ کہاں سے ملیں گے؟ آپ کی درجنوں ویڈیوز کہاں ہیں؟
فرض کریں کہ اگر آپ خود انہیں آسانی سے تلاش نہیں کر سکتے، تو کوئی دوسرا کیسے کر سکے گا؟
3۔ سرچ انجنز سے دوستی: یاد رکھیں انٹرنیٹ پر آپ کو کوئی بھی نہیں دیکھ رہا، جب تک کہ آپ اپنی پروفائل، چینل، اور ڈیٹابیس کا SEO نہیں کریں گے، اپنے کام کو آپٹیمائز کریں تاکہ بوقت ضرورت آپ کی تحریر، تقریر، تعلیم و تدریس وغیرہ لوگوں کے سامنے آئے!

بطور مثال آپ ’العلماء ڈاٹ او آر جی’ پر مختلف پروفائلز ملاحظہ کر سکتے ہیں!
ان سب چیزوں کو میں نے قدرے تفصیل سے ڈسکس کیا ہوا ہے، جو کہ تمام تحریریں العلماء ویب سائٹ پر میری پروفائل پر موجود ہیں، اور مزید بھی آئیں گی. ان شاء اللہ۔

اور یہ سب کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنی قدر و قیمت اور عظمت کو پہچانیں!

جو علماء اور عام لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس زمانے میں علماء کی ضرورت نہیں ہے کہ مساجد و مدارس تو پہلے ہی بے شمار ہیں، اور فارغین مدارس ویلے پھر رہے ہیں، کوئی قدر و قیمت نہیں ہے، ان سے گزارش ہے کہ اگر مسجد، مدرسہ میں جگہ نہیں مل رہی، تو اس سے بڑے بڑے پلیٹ فارمز معرض وجود میں آچکے ہیں، سوشل میڈیا پر آئیں، انٹرنیٹ پر ہمت کریں، اپنے حلقہ احباب بنائیں، دعوتی، اصلاحی، تدریسی سرگرمیاں یہاں سر انجام دینا شروع کریں، یہاں لاکھوں، کروڑوں لوگ موجود ہیں، جنہیں آپ اپنی طرف متوجہ کر سکتے ہیں اور اپنی علمی و دعوتی صلاحیتوں سے انہیں فائدہ پہنچا سکتے ہیں!
یہ غلط فہمی کہ اب تو دینی تعلیم کی ضرورت نہیں یہ غلط فہمی تبھی تک قائم رہ سکتی ہے، جب تک کہ ہم اپنی سوچ و فکر میں موجود جمود ک و ختم نہیں کر لیتے، جونہی مدارس، طلبہ، علماء کمفرٹ زون سے باہر نکل کر معاشرتی حالات اور موجودہ امکانات اور اپنی ذمہ داریوں پر غور وفکر کر کے اپنا لائحہ عمل اس کے مطابق ترتیب دینا شروع کر دیں گے، سب مسائل حل ہو جائیں گے!
پھر کوئی آپ کو آ کر یہ نہیں کہے گا کہ مدرسے کے طلبہ کو دین کے ساتھ ساتھ یہ بھی کرنا چاہیے، کیونکہ مدرسے کے طلبہ جب قرآن، حدیث، نحو، صرف، منطق، بلاغہ یہ سارا کچھ جدید پلیٹ فارمز پر پڑھانا اور سکھانا شروع کر دیں گے، لوگوں کی دینی کونسلنگ، اسلامی تربیت کرنا شروع کردیں گے، آن لائن افتاء سنٹرز کھل جائیں گے تو محسوس ہو گا کہ دینی کام زیادہ ہے اور افراد تھوڑے ہیں!!
اگر آپ مدرسے سے آٹھ دس سال لگا کر دین کی تعلیم توجہ سے حاصل کی ہے، اور پھر کوئی شخص آپ کو آ کر اس بات پر قائل کر لیتا ہے کہ نہیں آپ کو منڈی میں مزدوری، کپڑے کی دکان، اشٹام فروشی، ٹھیکیداری یا کوئی بھي اور دنیاوی کام کرنا ہی بہتر ہے، تو جان لیں کہ یا تو آپ کی اپنی شخصیت میں دم خم نہیں، یا اس نظام تعلیم کی شدید اصلاح کی ضرورت ہے، جس میں آپ نے آٹھ دس سال لگائے ہیں!
عالم دین کوئی بھی کام کر سکتا ہے، میں اس کو حرام نہیں کہہ رہا، لیکن ایک نظریاتی اور وژنری آدمی کبھی بھی اپنا تخصص اور فیلڈ چھوڑ کا نہیں بھاگتا، وہ حالات کے ساز گار ہونے کا انتظار کرنے کی بجائے، اصلاح کے لیے دوسروں کا منتظر بیٹھنے کی بجائے خود اپنے لیے، اپنے تخصص اور نظریے کے لیے ناموافق کو موافق بنا لیتا ہے!
سہولت پسندی اور جمود انسان کو مایوسی کی طرف لے کر جاتا ہے، لہذا ان چیزوں کو چھوڑیں اور دین کی دعوت و تبلیغ اور تعلیم و تدریس کے لیے اللہ کی دی ہوئی نعمتوں اور معاشرتی امکانات کو استعمال کرتے ہوئے عصر حاضر میں ’العلماء ورثة الانبياء’ ہونے کا ثبوت دیں، جنہوں نے ہر دور اور ہمہ قسم کے حالات میں دین کی نشر و اشاعت کی ذمہ داری بطریق احسن ادا فرمائی ہے۔

#خیال_خاطر

یہ بھی پڑھيں:ٹیکنالوجی کی انتہا یا ایک نئے دور کا آغاز؟