نظرات جدیدۃ فی علوم الحدیث​

اس کتاب کا بھی دوسرا ایڈیشن ہی پیش نظر ہے ، مکمل نام اس طرح ہے : ’نظرات جديدة في علوم الحديث ، دراسۃ نقدیۃ و مقارنۃ بین الجانب التطبیقی لدى المتقدمين و الجانب النظري عند المتأخرين‘ ۔
اس کتاب میں ’ علوم الحدیث ‘ کو مصنف نے جن ’ نئی نظروں ‘ سے دیکھا ، اس کا کسی حد تک اندازہ سابقہ کتاب کے تعارف سے ہوجاتا ہے، لہذا یہاں کوشش کرتا ہوں، وہی ذکر کروں جو پہلی کتاب میں رہ گیا ہے۔

وجہ تالیف:

مصنف کا کہنا ہے ، ہمارے زمانے میں ’ علوم حدیث ‘ سطحیت کا شکار ہیں ، بہت سارے لوگ چند محدثین ، فقہاء اور اصولیوں کے نتیجہ فکر کو پڑھنا پڑھانا اصول حدیث کا علم سمجھ لیتے ہیں ، جس کی وجہ سے ان کے ذہنوں میں اس علم کے متعلق وہ غلط تصور پیدا ہوچکا ہے ، جو ناقدین حدیث کے عملی اور تطبیقی کام سے میل نہیں کھاتا ، لہذا ضرورت ہے کہ ’ علوم حدیث ‘ پر نظرثانی کی جائے ، اور انہیں اس انداز سے مرتب کیا جائے کہ نظریاتی تاصیلات اور متقدمین کی عملی تطبیقات میں موافقت پیدا ہو ۔
مضامین کتاب دو حصوں میں منقسم ہیں ، پہلی قسم ’ الحقائق العلمیۃ ‘ ہے ، جبکہ دوسری قسم کو ’ محتوی علوم الحدیث عند المتقدمین ‘ کاعنوان دیا گیا ہے ۔
پہلی قسم کے ابتدائی عناوین میں یہ کوشش کی ہے کہ متقدمین و متاخرین میں فرق واضح کرسکیں ، اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ متقدمین سے مراد ’ عصر الروایۃ ‘ کے حفاظ ہیں ، جبکہ متاخرین سے مراد بعد کے مرحلے کے لوگ ہیں ۔ یہ بھی وضاحت کی ہے کہ خیر القرون ، یا تیسری صدی کو حد فاصل قرار دینا درست نہیں ، یہ بھی فرمایا کہ پانچویں اور چھٹی صدی ہجری انتقالِ منہج اور تبدیلی کا زمانہ ہے ۔گویا ’ خالص متقدمین ‘ کا زمانہ چوتھی صدی تک ختم ہوجاتا ہے ، جبکہ ’ محض متاخرین ‘ کا زمانہ ساتویں صدی سے شروع ہوتا ہے ۔
علوم حدیث میں تصنیف کا طریقہ:
فرماتے ہیں ، عصر روایت میں تصنیف کی گئی کتابیں مثلا امام مسلم کی تمییز ، معرفۃ علوم الحدیث للحاکم ، اور خطیب کی الکفایۃ ! کا منہج درست ہے کہ اس میں قواعد ،احکام و مسائل کو عصر روایت کے مطابق ذکر کیا گیا ہے ، لیکن ابن الصلاح نے آکر ایک جدید اسلوب اپنایا ہے ، جس میں اصطلاحات اور تعریفات میں منطقی مجبوریوں سے متاثر ہوئے ہیں ، گو اس کا مقصد طلاب کے لیے تیسیر اور آسانی تھی ، لیکن اس انداز کی وجہ سے فہمِ قواعد اور تحریرِ مسائل میں کئی ایک کج فہمیاں پیدا ہوئیں اور غلط نتائج برآمد ہوئےہیں ۔
مؤلف کا موقف ہے کہ اس فن کا ’ مصطلح الحدیث‘ کے عنوان سے رائج ہونا بھی اسی سطحی اور منطقی اصطلاح بندی کا نتیجہ ہے ، ورنہ اس سے پہلے یہ ’ علوم الحدیث ‘ وغیرہ ناموں سے معروف تھا۔
چند اصطلاحات کا جائزہ:
مصنف کے نزدیک جو اصطلاحات متاخرین کے طریقہ تصنیف کے باعث متاثر ہوئی ہیں ، ان میں بطور مثال ’ صحیح ، حسن ، منکر ، شاذ ، علت ، زیادۃ الثقۃ ، تفرد ، مخالفت ، الاعتبار‘ وغیرہ ذکر کی جاسکتی ہیں ۔
پھر تفصیلی گفتگو کے لیے تین اصطلاحات کو اختیار کیا ہے ۔
حسن : اس میں ترمذی ، خطابی ، ابن الجوزی ، ابن الصلاح وغیرہ علما کی تعاریف ذکر کی ہیں ، اور استدراک میں متقدمین کی بجائے ، ابن حجر اور عراقی وغیرہ متاخرین کے اقوال پیش کیے ہیں! ۔ موصوف کا موقف ہے کہ ’ حسن ‘ کی کوئی لگی بندھی تعریف نہیں ، امام ترمذی نے بھی جو تعریف کی ہے ، ایک تو وہ ان کی کتاب کے ساتھ خاص ہے ، دوسرا اس کا معنی وہ نہیں ، جو حد بندیاں متاخرین نے لگائی ہیں ، اور پھر بعد میں ’ حسن صحیح ‘ کے درمیان تطبیق دینے میں الجھتے رہے ہیں ، کیونکہ تعریف سے دونوں کو الگ کرچکے تھے۔ حالانکہ متقدمین کے ہاں صحیح اور حسن دونوں میں ایسا کوئی فرق ہے ہی نہیں ۔ بلکہ یہاں تک فرماتے ہیں ، متقدمین ’ صحیح ‘ کا اطلاق بھی صرف ثقہ کی روایت پر نہیں کرتے تھے ۔
منکر و شاذ : منکر کے متعلق فرماتے ہیں متاخرین کے ہاں اس کی تعریف ہے ’ مارواہ الضعیف مخالفا للثقۃ ‘ ، حالانکہ متقدمین کے ہاں منکر ہر وہ حدیث ہے ، جس کا مصدر غیر معروف ہو ، چاہے راوی ثقہ ہو یا ضعیف ، مخالفت ہو کہ نہ ہو ۔
شاذ متاخرین کے ہاں ’ مارواہ الثقۃ مخالفا لمن ہو أوثق ‘ ہے ، جبکہ متقدمین میں اس سلسلے میں اختلاف ہے ، لیکن اکثر متقدمین کی رائے میں اس سے مراد راوی کاتفرد ہے ، چاہے ثقہ ہو یا ضعیف ۔
متقدمین کے ہاں علوم حدیث:
اس حصے کی ابتدا اس بات سے کی گئی ہے ، کہ متقدمین نرے محدث نہیں تھے ، بلکہ حدیث کی فقہی مباحث میں بھی مہارت رکھتے تھے ، مسستشرقین اور ان پر ایمان لانے والوں کا محدثین کو یہ الزام دینا کہ انہوں نے صرف اسانید کو دیکھا ہے ، تحقیق متون پر توجہ نہیں دی ، یہ سوائے الزام کچھ نہیں ، محدثین کا اپنی کتب کو فقہی ابواب پر مرتب کرنا ، احادیث پر دقیق عناوین قائم کرنا اور نقد روایت میں ان کے اقوال اس بات کا بین ثبوت ہیں ۔ علی بن مدینی ، یحی بن معین ، امام احمد اور دیگر کئی ایک ناقدین سے انہوں نے کئی ایک اقوال اور مثالیں ذکر کی ہیں ، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ متقدمین محدثین نے روایات کے تحقیقی و فقہی دونوں پہلؤوں پر خصوصی توجہ دی ہے ،۔البتہ متاخرین کے ہاں یہ معاملہ ذرا مختلف ہے ، عصر روایت کے بعد نہ صرف یہ کہ محدثین میں ’ تفقہ ‘ مفقود ہونے لگا ، بلکہ ان کے ہاں ’ نقد روایت ‘ کا منہج بھی تبدیل ہوگیا۔یوں بعد میں مستشرقین کو احادیث پر تابڑ توڑ حملے کرنے کا موقعہ ملا ، اور ان سے متاثرین نے تحقیقِ حدیث کے لیے اپنے تئیں قرآن ، عقل ، اورتاریخی واقعات کا نام لینا شروع کیا۔
محدثین پر احادیث گھڑنے کے الزام کی تردید کے تسلسل میں ہی انہوں نے ایک مستقل عنوان قائم کیا ہے ، جس میں یہ ثابت کیا ہے کہ محدثین جھوٹی احادیث رائج کرنے والے نہیں ، بلکہ ان کا پردہ چاک کرنے والے ہیں ، موضوع اور من گھڑت احادیث ، اور ایسی روایتیں گھڑنے والے اور انہیں بیان کرنے والے لوگوں کے خلاف محدثین و ناقدین کی خدمات روز روشن کی طرح واضح ہیں ، جن کا انکار کوئی اندھا ہی کرسکتا ہے ۔ یہاں ایک بہت خوبصورت نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ’ داخلی و خارجی نقد ‘ کا جو اسلوب محدثین کا ہے ، عین درست ہے ، جبکہ جو فضول تصور مستشرقین وغیرہ کا ہے ، یہ ان لوگوں کے لیے ہے ،جن کے پاس ’ اسانید‘ نام کی کوئی چیز نہیں ہے ، اور انہوں نے مجبور ہو کر ٹامک ٹوئیوں کی کوئی حد مقرر کرنے کے لیے صحرا میں لکیریں کھینچنے کی کوشش کی ہے ۔
متقدمین کا منہجِ تصحیح و تعلیل:
اس عنوان کےتحت مصنف نے اس منہج کو واضح کرنےکی کوشش کی ہے ، جس پر متقدمین عمل پیرا تھے۔ لیکن چونکہ انہیں اصطلاح بندی اور تاصیل سے چڑ ہے ، اس لیے کوئی مفہوم و متعین بات نہیں کرسکے۔ کوشش کرکے اس بحث کے اہم نکات ذکر کرتا ہوں :
1۔ متقدمین ہر اس حدیث کی تصحیح کرتے ہیں ، جس کے راویوں کے صدق اور سند کے متصل ہونے کی شکل میں درست ہونے کا انہیں یقین ہوجائے ، چاہے وہ راوی عمومی درجے کے اعتبار سے ثقہ ہو یا ضعیف ۔
2۔ اور ہر وہ حدیث جس میں کسی راوی کی غلطی یا وہم کا انہیں قوی احساس ہو ، اس کی روایت کو رد کردیتے ہیں ، راوی عمومی درجے میں چاہے ثقہ ہو یا ضعیف ۔
3۔ راوی کے صدق ، ضبط اور اتقان کا فیصلہ بھی وہ اس کی روایات کی روشنی میں کرتے ہیں ، اگر اس کی عموما روایات دوسرے رواۃ کے مطابق ہوئیں تو یہ اس کے ثقہ ہونے کی دلیل ہے ، اور جس کی روایات میں دوسروں سے بہ کثرت اختلاف ہو ،تو اس کی غلطیوں اور اوہام کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے ، اس کا مرتبہ طے کیا جاتا ہے ۔
4۔ سابقہ نکتے سے واضح ہوتا ہے کہ متقدمین کے ہاں تحقیقِ روایت کی ابتدا متاخرین کی طرح راوی کے بارے میں کہے گئے کلمات ’ ثقہ ، ضعیف ، متروک ‘ وغیرہ سے نہیں ہوتی تھی ، بلکہ راویوں کے یہ مراتب ان کی مرویات دیکھنے کے بعد طے ہوتے تھے۔
5۔ روایات کا مقارنہ کرتے ہوئے ناقدین ، قرآن ، سنت ، عملی واقع ، عرف ، زمان و مکان ، حالات و واقعات کو بھی دیکھتے تھے ، لہذا جس روایت میں بظاہر ان چیزوں سے تعارض پایا جاتا تھا ، اس کی خوب خوب تحقیق کی جاتی تھی ۔ ا س عرق ریزی کے باعث ناقدین میں یہ ملکہ اور مہارت پیدا ہوگئی تھی کہ ثقات کی روایات میں غلطیاں فورا پہچان لیتے تھے ، اور ضعفا کی روایتوں میں درست باتیں نکھرکر ان کے سامنے آجاتی تھیں ۔
مصنف نے مقدمے میں ذکر کیا ہے کہ اس کتاب کی اصل ان کا ایک مقالہ ہے ، جو انہوں نے صحیح بخاری میں منہجِ نقد کے بیان کی وضاحت کے لیے کسی کانفرنس میں پڑھا تھا ، بعد میں کچھ حک و اضافہ کرکے اسے ایک مستقل کتاب کی شکل دے دی ۔ لیکن ابھی بھی محسوس ہوتاہے کہ بعض مباحث میں صحیح بخاری و صحیح مسلم اور مستشرقین کا ذکر بے ربط آجاتا ہے ، اور بعض جگہ میں باوجود تفصیلی بحث کی ضرورت کے صرف امام بخاری کے ذکر یا عقل پرستوں کے متعلقہ اعتراضات کے رد پر اکتفا کرلیا گیا ہے۔


اس سلسلے کی تمام تحاریر پڑھنے کے لیے اس لنک کو ملاحظہ کریں۔