سوال (2295)

اپنے گاؤں علاقے کے اندر اندر عورت کا باپردہ ہوکر گھر سے باہر نکلنا اس کی دلیل مطلوب ہے؟

جواب

عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ ، قَالَتْ: تَزَوَّجَنِي الزُّبَيْرُ وَمَا لَهُ فِي الْأَرْضِ مِنْ مَالٍ وَلَا مَمْلُوكٍ وَلَا شَيْءٍ غَيْرَ فَرَسِهِ، قَالَتْ: فَكُنْتُ أَعْلِفُ فَرَسَهُ وَأَكْفِيهِ مَئُونَتَهُ وَأَسُوسُهُ وَأَدُقُّ النَّوَى لِنَاضِحِهِ، وَأَعْلِفُهُ وَأَسْتَقِي الْمَاءَ وَأَخْرُزُ غَرْبَهُ وَأَعْجِنُ، وَلَمْ أَكُنْ أُحْسِنُ أَخْبِزُ، وَكَانَ يَخْبِزُ لِي جَارَاتٌ مِنْ الْأَنْصَارِ وَكُنَّ نِسْوَةَ صِدْقٍ، قَالَتْ: وَكُنْتُ أَنْقُلُ النَّوَى مِنْ أَرْضِ الزُّبَيْرِ الَّتِي أَقْطَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رَأْسِي وَهِيَ عَلَى ثُلُثَيْ فَرْسَخٍ ، قَالَتْ: فَجِئْتُ يَوْمًا وَالنَّوَى عَلَى رَأْسِي، فَلَقِيتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ نَفَرٌ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَدَعَانِي، ثُمَّ قَالَ: إِخْ إِخْ لِيَحْمِلَنِي خَلْفَهُ، قَالَتْ: فَاسْتَحْيَيْتُ وَعَرَفْتُ غَيْرَتَكَ، فَقَالَ: ” وَاللَّهِ لَحَمْلُكِ النَّوَى عَلَى رَأْسِكِ أَشَدُّ مِنْ رُكُوبِكِ مَعَهُ “، قَالَتْ: حَتَّى أَرْسَلَ إِلَيَّ أَبُو بَكْرٍ بَعْدَ ذَلِكَ بِخَادِمٍ، فَكَفَتْنِي سِيَاسَةَ الْفَرَسِ فَكَأَنَّمَا أَعْتَقَتْنِي.

حضرت اسماء رضی اللہ عنہا) نے کہا: حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے نکا ح کیا تو ان کے پاس ایک گھوڑے کے سوانہ کچھ مال تھا، نہ غلام تھا، نہ کوئی اور چیز تھی۔ان کے گھوڑے کو میں ہی چارا ڈالتی تھی ان کی طرف سے اس کی ساری ذمہ داری میں سنبھا لتی۔اس کی نگہداشت کرتی ان کے پانی لا نے والے اونٹ کے لیے کھجور کی گٹھلیاں توڑتی اور اسے کھلا تی میں ہی (اس پر) پانی لا تی میں ہی ان کا پانی کا ڈول سیتی آٹا گوندھتی، میں اچھی طرح روٹی نہیں بنا سکتی تھی تو انصار کی خواتین میں سے میری ہمسائیاں میرے لیے روٹی بنا دیتیں، وہ سچی (دوستی والی) عورتیں تھیں، انھوں نے (اسماء رضی اللہ عنہا) نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر رضی اللہ عنہ کو زمین کا جو ٹکڑا عطا فرما یا تھا وہاں سے اپنے سر پر گٹھلیاں رکھ کر لا تی یہ (زمین) تقریباً دو تہائی فرسخ کی مسافت پر تھی۔کہا: ایک دن میں آرہی تھی گٹھلیاں میرے سر پر تھیں تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملی آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سے کچھ لو گ آپ کے ساتھ تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلا یا، پھر آواز سے اونٹ کو بٹھا نے لگے تا کہ (گٹھلیوں کا بوجھ درمیان میں رکھتے ہو ئے) مجھے اپنے پیچھے بٹھا لیں۔انھوں نے (حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرتے ہو ئے) کہا: مجھے شرم آئی مجھے تمھا ری غیرت بھی معلوم تھی تو انھوں (زبیر رضی اللہ عنہ) نے کہا: اللہ جا نتا ہے کہ تمھارا اپنے سر پر گٹھلیوں کا بوجھ اٹھا نا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سوار ہونے سے زیادہ سخت ہے۔کہا: (یہی کیفیت رہی) یہاں تک کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے میرے پاس (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عطا کردہ ایک کنیز بھجوادی اور اس نے مجھ سے گھوڑے کی ذمہ داری لے لی۔ (مجھے ایسے لگا) جیسے انھوں نے مجھے (غلا می سے) آزاد کرا دیا ہے۔ [صحیح مسلم: 5692 ترقیم فؤاد عبدالباقی 2182]

فضیلۃ العالم عبد الخالق سیف حفظہ اللہ