سوال (2370)

قرآن کریم میں بچیوں کو زندہ درگور کرنے کا ذکر کہاں ہے اور اس حوالے سے صحابہ کرام کا کوئی واقعہ ہے تو بیان کر دیں۔

جواب

اس کا ذکر قرآن کریم کے 30 ویں پارے کی سورۃ التکویر کی آیت نمبر آٹھ میں ہے کہ قیامت والے دن زندہ درگور کی جانے والی بچی سے پوچھا جائے گا کہ اسے کس جرم کی پاداش میں زندہ درگور کیا گیا تھا؟
اس حوالے سے درج ذیل روایت بھی ہے:

عن النعمان بن بشير رضي الله عنه يقول:
سمعت عمر بن الخطاب يقول: وسئل عن قوله: ( وَإِذَا الْمَوْءُودَةُ سُئِلَتْ ) [التكوير/8] قال:
جاء قيس بن عاصم إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ( إني وأدت ثماني بنات لي في الجاهلية . قال: أعتق عن كل واحدة منها رقبة. قلت: إني صاحب إبل. قال:(أهد إن شئت عن كل واحدة منهن بدنة)
[رواه البزار (1/60)، والطبراني في “المعجم الكبير ” (18/337) وقال الهيثمي: “ورجال البزار رجال الصحيح غير حسين بن مهدي الأيلي وهو ثقة ” انتهى.” مجمع الزوائد ” (7/283)، وصححه الألباني في ” السلسلة الصحيحة: 3298]

نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے کسی نے آیت ( وَإِذَا الْمَوْءُودَةُ سُئِلَتْ ) [التكوير/8] کے متعلق پوچھا تو آپ نے بیان کیا کہ قیس بن عاصم نامی صحابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اعتراف کیا کہ میں نے جاہلیت میں اپنی آٹھ بیٹیوں کو زندہ درگور کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر ایک کے بدلے میں ایک گردن (غلام) آزاد کرو۔ لیکن میں نے عرض کی کہ میرے پاس تو اونٹ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر ایک بچی کے بدلے میں ایک اونٹ اللہ کے رستے میں قربان کرو۔
بعض کتابوں میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بھی ایک طویل واقعہ لکھا ہوا ہے کہ آپ نے زمانہ جاہلیت میں اپنی بیٹی کو زندہ درگور کیا تھا۔ لیکن یہ بات کسی مستند ذریعے سے ثابت نہیں۔ ویسے بھی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی بیٹی ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا موجود تھیں، اگر وہ بچیوں کو زندہ درگور کرنے والے ہوتے تو ان کی بیٹی حفصہ بڑی نہ ہوتی اور نہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عقدِ نکاح میں آتی۔

فضیلۃ العالم خضر حیات حفظہ اللہ