سوال (3904)
حضرت حذیفہ سے روایت ہے۔ کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک آدمی کے پاس اس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ تو آپ نے اس کی کلائی میں دھاگہ دیکھا۔ آپ نے پوچھا۔ یہ کیا ہے؟ اس نے جواب دیا۔ یہ ایک دھاگہ ہے جس میں مجھے دم کر کے دیا گیا ہے۔ اس پر حضرت علی نے اس کو توڑ دیا۔ پھر فرمایا: اگر تم مر جاتے تو میں تمہارا جنازہ نہ پڑھتا۔ [ابن ابی شیبہ: 23928 فصل: طب کا بیان]
کیا یہ روایت صحیح ہے؟
جواب
جی صحیح ہے۔ یہ اثر مصنف ابن أبی شیبہ: (25007)،السنة للخلال: (1624) الإبانة الكبرى لابن بطة: (1031) میں ہے، امام سلیمان بن مھران الاعمش سے، ابو معاویہ الضریر، سفیان ثوری نے اسے روایت کیا ہے، اور یہ دونوں اعمش سے روایت میں أثبت و أحفظ ہیں اور امام سفیان ثوری اعمش کی حدیث میں أعلم الناس ہیں۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ
سوال: تعویذ دھاگہ کرنا یا باندھنا کیسا ہے؟
جواب: گلے، کمر یا جسم کے کسی بھی حصے پر دھاگہ باندھنا جائز نہیں ہے، خواہ وہ قرآنی تعویذ ہو، اجتناب کرنا چاہیے، صحیح دلائل سے ثابت نہیں ہے، انسان کبھی کہاں ہوتا ہے، کبھی کہاں ہوتا ہے، بد عقیدگی جو تعویذ کرتے ہیں، ان سے مشابہت ہوتی ہے، حالت جنابت کی وجہ سے بے حرمتی ہوجاتی ہے، قرآن و حدیث عمل کرنے کی چیز ہے، قرآن مجید دھاگہ تعویذ کے لیے تھوڑی ہے۔
“من تعلق تمیمة فقد اشرك”
«جس نے تعویذ لٹکائی ہے ، اس نے شرک کیا ہے»
کسی نے کوئی چیز لٹکائی ہے تو وہ اس کے سپرد کیا جاتا ہے۔ لہذا قباحتیں ہی قباحتیں ہیں۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ



