دینی مدارس کے طلبہ اور فکرِ معاش

سچ آکھاں تے بھانبڑ بلدا اے
یہ مسئلہ نہایت حل طلب ہے کہ فی زمانہ دین کا علم حاصل کرنے والوں کی معیشت میں کسی نہ کسی طرح بہتری لائی جائے…جہاں دین سے محبت رکھنے والے صاحبانِ فکر و نظر اور حامیانِ علم و ہنر دردِ دل کے ساتھ اس مسئلے کے حل کے لیے تگ و دو کرتے ہیں وہاں ایسے حضرات جن سے خیر کی توقع ہوتی ہے افسوسناک طرز تکلم اپناتے ہوئے طعن و تشنیع کے نشتر چھبوتے اور طنز کے ایسے تیر چھوڑتے ہیں کہ زبان سے بے اختیار نکل جاتا ہے :
تم سلامت رہو کس شوق سے اٹھی لاش ہماری
تم نہ آتے تو نہ یہ رونق نہ یہ ساماں ہوتا
دنیا دار کا مطمح نظر چونکہ دنیا ہوا کرتی ہے اس لیے وہ ہر چیز کو دو جمع دو چار کے تناظر میں اپنی گدلی عینک لگا کر دیکھتا ہے جس میں ہر سو دھند ہی دھند دکھائی دیتی ہے…یا پھر کسی بسیار گو افسانہ نویس کی طرح فردِ واحد کی غلطی كو
” منٹو” اور ” عصمت چغتائی ” جیسی انشا پردازی کا سہارا لے کر سارے معاشرے پر زبردستی ٹھونس کر ہوہا کار مچائی جاتی ہے…بہرحال :
تم کو تمہارا فرض مبارک ہم کو مبارک اپنا جنوں
میرے مخاطب بے رحم سرمایہ دار نہیں بلکہ عزیز طلبہ ہیں…تین ہدایات ہیں جو بقول شاعر :
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں
مانو نہ مانو جانِ جہاں! اختیار ہے
والا معاملہ ہے.
1 : رزق میں برکت و کثرت کا پہلا روحانی نسخہ تقویٰ و طہارت یعنی ” روحانیت ” ہے. فرمان باری تعالیٰ ہے :(وَمَنْ يَّـتَّـقِ اللهَ يَجْعَلْ لَّه مَخْرَجاً وَّ يَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَايَحْتَسِبْ).[الطلاق :3].
ترجمہ: اور جو اللہ سے ڈرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے مصائب سے نکلنے کی راہ بنا دیتے ہیں اور اسے ایسی جگہ سے روزی دیتے ہیں جہاں اس کا گمان بھی نہیں ہوتا.
ہمارا ایک بہت بڑا مسئلہ روحانیت کا فقدان ہے…دین حاصل کرنا اور اس میں پختگی اور فیوض و برکات کا سلسلہ جاری ہونا دونوں اسی وقت جمع ہو سکتی ہیں جب طالب علم تقویٰ اور روحانیت کی دولت سے مالا مال ہو…ایسا شخص معاشرے کی ضرورت ہوتا ہے اور جو ضرورت ہو جلد یا بدیر اسے قدردان مل ہی جاتے ہیں جو اس کی ضروریات اور سہولیات کا خیال رکھتے ہیں…اس ضمن میں مزید ایک آیتِ کریمہ ملاحظہ فرمائیں :
وَ لَوْ اَنَّ اَهْلَ الْقُرٰۤى اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْهِمْ بَرَكٰتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ وَ لٰـكِنْ كَذَّبُوْا فَاَخَذْنٰهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ.(الأعراف : 96).
اور اگر بستیوں والے ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ضرور ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں کھول دیتے مگر انہوں نے تو جھٹلایا تو ہم نے انہیں ان کے اعمال کی وجہ سے پکڑلیا۔
2 : سازشی اور فتنہ گر نہ ہوں.
یہ ایسی عادت ہے جو بقول مؤرخین ” ابن خلدون ” جیسے باصلاحیت شخص کو لے ڈوبی…یورپ کا
بابائے عمرانیات اور دنیا کو اصولِ جہاں بانی بتانے اور سکھانے والا، ” مقدمہ ابن خلدون” جیسی شاہکار کتاب کا مؤلف…مگر ذاتی زندگی سازشوں، مکاریوں اور عیاریوں سے بھر پور…جس نے بھلا کیا اسی کا برا کیا…ساری زندگی اگاڑ پچھاڑ اور بادشاہ گری میں یا بادشاہوں کے عتاب اور زندان خانوں سے بھاگتے گزری اور اسی عالم نامرادی میں دنیا سے کوچ کیا…صاحب کا اصل مسئلہ یہ تھا کہ جس طرح میرے لکھے ہوئے اصول جہاں بانی مستند ہیں ایسے ہی تختِ شاہی پہ متمکن و جلوہ افروز ہونے کا حق بھی صرف مجھی کو حاصل ہے…آج کتنے قابل و فاضل ہیں جو اس بری عادت کی وجہ سے باعثِ پریشانی ہیں…جہاں جاتے ہیں ایسے گل کھلاتے ہیں کہ الامان والحفظ…رونا یہ رویا جاتا ہے کہ ہمیں کوئی رکھتا نہیں…ہماری صلاحیتوں سے فائدہ نہیں اٹھا جا رہا…مجھے ضائع کیا جا رہا ہے…حالانکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ ” ما ینفع الناس یمکث في الأرض”…یہ عزیزان غفلت شعار اس سچائی سے مکمل طور پر بے خبر ہیں کہ
” صلاحیت ” کے ساتھ ساتھ ” صالحیت ” بھی ازحد ضروری ہے…ان دو خوبیوں کا بیک وقت جمع ہونا ہی آپ کو ادارے کی ضرورت بنا سکتا ہے…خواہ کام میں مہارتِ تامہ نہ بھی ہو لیکن اگر آپ سازشی اور مکار نہ ہوں تو لوگ آپ کو کام سکھانے میں خوشی محسوس کریں گے. مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ کچھ سال قبل مجھے پانچواں پیریڈ دے دیا گیا…میں اظہارِ خفگی کے لیے مشفق و مربی چوہدری محمد یاسین ظفر صاحب حفظہ اللہ کے پاس گیا اور روکھے لہجے میں کہا کہ آپ نے مجھے ہی کیوں پانچواں پیریڈ دیا ہے؟ کسی اور کو دے دینا تھا.
حضرت چوہدری صاحب مسکرا کر گویا ہوئے :
بٹ صاحب میں اسے ذمہ داری دیتا ہوں جس پر مجھے اعتماد ہوتا ہے. آپ نہ سازشی ہیں نہ مکارانہ ذہنیت کے حامل اس لیے آپ کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے. کچھ احسان فراموش اس قماش کے ہوتے ہیں کہ کوئی ذمہ داری ملتے ہی سب سے پہلے اس جگہ پہ لانے والے کی چھٹی کروا کر اس کی جگہ خود آنے کی کوشش کرتے ہیں، اور اگر ایسے سازشی عناصر کی بروقت چھٹی نہ کرائی جائے تو پھر اپنا بوریا بستر گول کر کے ہر ایک کو یہ کہہ کر جی بہلایا جاتا ہے کہ :
أُعَلِّـمُهُ الرِّمَـايةَ كُلَّ يَـومٍ
فَلمَّـا استَدَّ سَاعِدُه رَمانِي
وَكَمْ عَلَّمْتُـهُ نَظْمَ القَوَافي
فَلَـمَّـا قَالَ قَافِيةً هَجـانِي
3 : فنی مہارت :
عزیزانِ غفلت شعار اور اپنی سرمستیوں میں سرمست نونہالانِ چمن یہ دنیا ہماری خواہشات کے تابع نہیں ہے کہ جو ہمارے حاشیہء خیال میں گزرا وہ پل بھر میں حقیقت بن کر ہمارے سامنے آ جائے گا. یہ تو جنت کا وصف ہے کہ ” ولکم فیہا ماتشتھی انفسکم ولکم فیھا ما تدعون ” اس دنیا میں کامیابی و کامرانی کے کچھ فطری اصول ہیں. جو شخص ان اصولوں کی مستقل مزاجی سے پیروی کرتے ہوئے سرتوڑ محنت کرے گا وقت کا دھارا اسے نہ صرف منزل مقصود تک پہنچاتا ہے بلکہ اسے نمایاں اور امتیازی حیثیت حاصل ہوتی ہے. دینی مدارس میں جو پڑھا پڑھایا جاتا ہے اس کے مؤثر ابلاغ کے لیے تین صلاحیتیں بروئے کار لائی جاتی ہیں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں :
1 : تحریر. 2 : تقریر. 3 : تدريس.
ان تین فنون میں سے جو شخص جس فن میں جتنا ماہر ہوگا اس کی اسی قدر قدردانی ہوگی اور اسی قدر اس کا وظیفہ مقرر کیا جائے گا. کیونکہ اصول یہ ہے کہ ” قيمة كل امرئ ما يحسن” یعنی جتنا اچھا کام اتنے ہی اچھے دام…جو چاہتا ہے کہ اسے بے تحاشہ فوائد حاصل ہوں اسے چاہیے کہ دن رات محنت کرے اور تینوں شعبوں میں اتنی فنی مہارت حاصل کرے کہ دور دور تک اس کا کوئی ہم پلہ نہ ہو. اب ٹھیکیدار صاحب سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ جو فون کرکے آپ کو اپنے دکھڑے سنا کر اس کچی اور بالی عمر میں آپ کا بلڈ پریشر اتنا ہائی کر دیتے ہیں کہ آپ ایک مائک اور کسی ایک فرد کے سامنے بیٹھ کر چیختے چلاتے اور ہواؤں سے لڑتے ہیں ذرا اس دکھڑے سنانے والے کی علمی قابلیت جانچنے کی زحمت گوارا کریں اور اس ادارے میں جہاں اس بخت مارے نے تعلیمی مراحل طے کیے ہیں اس کی کارکردگی اور اہلیت کا پوچھیں، پھر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا…یہ دیکھیں کہ اس کی کلاس میں حاضری کتنی ہے؟ تعلیم کے دوران اس کی کیا پوزیشن تھی؟ اور کن اخلاقی اور غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث تھا؟ یہ قانونِ قدرت ہمیشہ
پیشِ نگاہ رکھیں(فَاَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْهَبُ جُفَآءًۚ-وَ اَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْكُثُ فِی الْاَرْضِؕ-كَذٰلِكَ یَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَالَ).
ترجمہ : تو جھاگ تو ضائع ہوجاتا ہے اور وہ جو لوگوں کو فائدہ دیتا ہے وہ زمین میں باقی رہتا ہے.
اللہ یوں ہی مثالیں بیان فرماتا ہے.( الرعد :17).
آہ فآہ ثم آہ…آپ نے کبھی اس کوچے میں صحرا نوردی کی ہوتی…کبھی اس بازار میں پابجولاں چلے ہوتے…کبھی حقیقت حال سے باخبر ہونے کے لیے فریقین کی بات سنی ہوتی تو یقیناً آپ ایسے لوگوں کی حقیقت واضح ہونے کے بعد یہ کہہ اٹھتے کہ :
ہر کوئی مستِ مئے ذوقِ تن آسانی ہے
اس میں شک نہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام میں پلنے والے بعض نااہل سریرِ حکومت پر متمکن ہیں مگر اس کا حل یہ تو نہیں کہ جوشِ جنوں میں جو چاہا کہہ دیا…ذوقِ عشق کی آزمائش بھی ہوا کرتی ہے…دل کی سچائی جاننے کے لیے پاؤں میں چار کانٹے چبھ جایا کرتے ہیں :
تو سمجھتا ہے یہ ساماں ہے دل آزاری کا
امتحاں ہے تیرے ایثار کا، خودداری کا
اگر قابلیت کا جوہر ہو تو نگاہ بلند، جاں پرسوز اور سخن دلنواز رختِ سفر میں بہت کام آتے ہیں…آغاز میں حوصلہ شکنی کرنے والے…مالی استحصال کرنے والے ملیں تو کیا ضروری ہے کہ ساری عمر ان کے پلّو سے بندھے رہیں؟ خوب سے خوب تر کی جستجو رکھیں…جہاں آپ کی صلاحیتوں کے مطابق کام اور دام ہو وہاں اللہ تعالیٰ سے مشاورت کرکے ناقدری کرنے والوں کی محفل سے کوچ کر جائیں اور جہاں خدمات سر انجام دیں اپنی ذمہ داریوں اور مالی معاملات کے بارے میں تفصیلی گفتگو کرکے اگر آپ مطمئن ہوں تو اسے تحریری شکل دیں.