ڈاکٹر سبیل اکرام پر اللہ کی رحمت نازل ہو،

ڈاکٹر سبیل اکرام پر اللہ کی رحمت نازل ہو، انھوں نے اپنی بات کی وضاحت کی،اپنے غلط سمجھے گئے موقف سے رجوع کیا، علما کو اپنے سر کا تاج کہا، دینی مدارس کے چندے کے غلط کہے جانے کو غلط کہا۔ عبدالرب بھٹہ صاحب کا بھی شکریہ، وہ سینوں کو ٹھنڈا کر دینے والا یہ موقف سامنے لائے۔ یہ ان کی دوسری بڑی خیر خواہی ہے،جو انھوں نے سرانجام دی۔ پہلی اچھی خبر مفتی مبشر احمد ربانی حفظہ اللہ کے حوالے سے ان کی کوشش سے سامنے آئی۔ شائد اسی سے حوصلہ پا کر انھوں نے دوسری خیر خواہی کا قصد کیا۔ اچھا کیا۔ ایسے کام اور ایسے معتدل لوگوں کی فریقین میں بٹے معاشرے کو بہت ضرورت ہے۔
ان لوگوں کو بھی اللہ جزا دے،جنھوں نے خیر خواہی سے اس مسئلے پر بات کی۔ ان لوگوں کو البتہ تحمل شعار کرنا چاہیے جو تندی اور تیزی سے اصلاح کے بجائے اپنے رویے سے دوسروں کو مزید دور کرنے کی سعی کر جاتے ہیں۔ ظاہر ہے، تنقید برائے تذلیل اور تنقید برائے تحقیر و تکلیف نہ تو کوئی خیر خواہی کا انداز ہے،نہ مسنون طرز عمل اور نہ نتیجے کے اعتبار سے مفید چیز۔

#یوسف_سراج

انداز میں سلیقہ اور تحمل سیکھنے سے اور عمر کے تجربے سے آتا ہے، رد عمل میں ویسے بھی زور و شور اور جوش و خروش زیادہ ہوتا ہے، تاہم مدرسہ کے بچے کی جس معیشت کو بہتر کرنے کی بات حافظ سجاد صاحب اور ڈاکٹر سبیل اکرام صاحب نے کی ہے،وہ صرف دینی مدرسے کے بچے کا مسئلہ نہیں، خود دینی ادارے اور دینی استاد کا مسئلہ بھی ہے۔ ویسے تو یہ ہر پاکستانی اور ہمارے پاکستان کا بھی مسئلہ ہے۔ کھردرے اسلوب میں زور و شور سے کی گئی اس پوڈ کاسٹ کا اگر کوئی مثبت نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے تو وہ یہ کہ دینی سرکل میں دنیا کی بے جا مذمت کم کی جائے، اسے ربنا اتنا فی الدنیا حسنہ و فی لآخرة حسنہ کا توازن دیا جائے۔ مدارس کے طلبا کی معیشت کا انحصار متبادل ذرائع پر منتقل کیا جائے اور دینی امام و خطیب کو اپنی ضروریات میں خود کفیل کرکے اس کا معیار زندگی معاشرے سے ہم آہنگ کیا جائے تاکہ اس کی ذات اور بات میں وقار آ سکے۔ اس میں معاشرہ بھی دینی اداروں کا ساتھ دے۔ یہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بج سکتی۔
یہ بات اور سوچ بڑی عمدہ ہے مگر سوال یہ ہے کہ اس پر عمل کیسے ہوگا؟ ظاہر ہے پوڈکاسٹ ہی سے اس گھمبیر مسئلے کو حل ہونا ہوتا تو خود ملک پاکستان بہت سے پوڈ کاسٹ کرکے اپنی معیشت سنبھال چکا ہوتا۔ میرے خیال میں مدرسے کے بچے سے پہلے خود مسجد و مدرسہ کی معیشت مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔اس کیلئے انڈومنٹ یعنی وقف کا انتظام ہونا چاہیے تاکہ مسجد ہر جمعے بجلی کا بل بھرنے کے اعلان سے بچ سکے اور مدرسہ اپنی مرضی کا نصاب بچوں کو پڑھا سکے۔ یہی سسٹم برصغیر میں انگریز کی آمد سے پہلے بھی رائج تھا۔ انگریز نے جسے ضبط کرکے مسجد و مدرسہ کو گاؤں کے کمی کمین کے برابر کر دیا۔ اگر ہمارے دوست مخلصانہ طور پر اس سسٹم کو بدلنا چاہتے ہیں تو یہ واقعی بڑا کام ہے مگر اس کے لیے مساجد و مدارس کو مستحکم کیے بغیر اور نصاب کا عصر حاضر کے مطابق جائزہ لیے بغیر یہ ممکن نہیں۔

#یوسف_سراج