حافظ ہونا بڑے شرف اور مرتبے کی بات ہے،بیشتر حفاظ اس ماہ مبارک میں مختلف مساجد کے اندر تراویح کی نماز پڑھاتے ہیں،دوران قرأت غلطی کا صدور ہوجانا بشری تقاضہ ہے،جسے کسی بھی صورت میں معیوب نہیں سمجھنا چاہیے ۔
گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں
وہ طفل کیا گرے جو گھٹنوں کے بل چلے
اپنے یہاں اکثر خطوں میں رجحان یہ ہے کہ حفاظ نے اگر غلطی کردی تو پورے محلہ میں چرچے کا موضوع بن جاتا ہے، اس ضمن میں چند باتیں قابل غور ہیں۔
1: سوال یہ ہے کہ حفاظ کو لقمہ کون دے؟۔ اس سوال کا سیدھا اور صحیح جواب یہی ہوگا کی حفاظ کو لقمہ حفاظ ہی دیں تو بہتر ہے۔ اس میں بھی جو متقن حافظ ہیں وہ لقمہ دیں۔ایسا اس لئے کہ مان لیا جائے کہ حافظ صاحب نے ایک آیت چھوڑ دی،کوئی لفظ چھوٹ گیا ایسی صورت میں حفاظ پیچھے سے پڑھتے ہیں۔بعض دفعہ ایک آیت یا،اس سے زیادہ آیت۔جو حافظ نہیں ہیں اگر وہ لقمہ دینے کی غلطی کرتے ہیں،جنہیں خود یاد نہیں،وہ قرآن لے کر پیچھے کھڑے رہتے ہیں تو یہاں لقمہ دینے والے غلطی کریں گے۔حافظ بیچارا پیچھے سے ملانے کی کوشش کررہا ہے اور ادھر معاملہ کچھ اور ہوجاتا ہے۔یہ صورت پیچھے جو متقن حافظ ہیں وہی سمجھ سکتے ہیں۔
2: دوسرا نکتہ یہ ہے کہ حافظ کو لقمہ کب دیا جائے؟ ۔
اس بابت یہ خیال رہے کہ پہلے حافظ کو خود سے صحیح کرنے کا موقع دیا جائے۔مثلا وہ ایک دو آیت پیچھے سے پڑھ کر دیکھ رہے ہیں تو اسے کرنے دیں۔باوجود اس کے اگر گاڑی نہیں چل پارہی ہے تو لقمہ دیا جائے۔لقمہ دیتے ہوئے اپنا بڑکپن اور دھونس جمانا بالکل بھی مقصود نہیں ہونا چاہیے ۔
3: لقمہ کیسے دیا جائے؟۔
یہ بڑا اہم ہے۔اولا تو جو لقمہ دے رہے ہیں انہیں خود پہ اعتماد ہو۔اپنا تجربہ میرا یہ رہا ہے کہ ہمارے پیچھے ایک حافظ صاحب قرآن لے کر کھڑے رہتے تھے ۔ایک دن ان کے پاس مصحف نہیں تھا، انہوں نے مشابہ والی آیت پہ ہمیں لقمہ دینا شروع کیا حالانکہ میں صحیح پڑھ رہا تھا۔ اس لئے لقمہ دینے والے کا متقن ہونا بہت اہم ہے ۔
عجیب المیہ ہے کہ ہر ایرا غیرا حافظ صاحب کی غلطی نکالنے پہ لگا ہوا ہے،جسے صحیح سے اعوذ باللہ اور بسم اللہ پڑھنے کا ڈھنگ نہیں وہ بھی لقمہ دینا اپنا حق سمجھتے ہیں ۔
اس سلسلے میں اچھی پیش رفت یہ ہوسکتی ہے کہ مساجد میں اچھے حافظ کا انتخاب کیا جائے ،مگر ہم تو آواز دیکھ کر حافظ چنتے ہیں نا،کیا ہی بہتر ہوتا کہ یادداشت دیکھا جاتا۔اگر ایک مسجد میں دو حافظ کا انتخاب کردیا جائے تو یہ اور بہتر ہے۔ایسے صورت میں لقمہ دینے کی ذمہ داری صرف اس حافظ کی ہو۔اگر اس نے لقمہ دینے میں کوتاہی کی تو پھر دوسرے فرد دینے کے اہل ہوں ۔
اپنے یہاں حفاظ کو پریشان کرنا بھی مقصود ہوتاہے بہر کیف یہ بہت معیوب بات ہے ۔
آخری بات حافظ جی سے غلطی ہونا اور حافظ صاحب کو لقمہ پڑنا کوئی معیوب بات نہیں ہے۔اللہ کے واسطے اس سے حفاظ کی تحقیر نہ کریں ۔حافظ جی آج آپ نے تین غلطی کردی،اس مسجد کے حافظ جی نے تو غلطی ہی نہیں کی۔
اللہ کے واسطے یہ سب بند کریں۔

حافظ شاہنواز صادق تیمی