ابن حزم پر ابن العربی کی تنقید اور حافظ ذہبی کا تبصرہ

امام ابن حزم رحمہ اللہ ظاہری تھے، جبکہ ابو بکر ابن العربی مالکی تھے۔ دونوں چوٹی کے علمائے کرام میں سے ہیں اور دونوں کو حافظ ذہبی نے ’اعلام النبلاء’ میں شمار کیا ہے۔
حافظ ذہبی ابن حزم کے بارے لکھتے ہیں:
«الإِمَامُ الأَوْحَدُ، البَحْرُ، ذُو الفُنُوْنِ وَالمعَارِفِ… الفَقِيْهُ الحَافِظُ، المُتَكَلِّمُ، الأَدِيْبُ، الوَزِيْرُ، الظَّاهِرِيُّ، صَاحِبُ التَّصَانِيْفِ». [السیر 18/ 184]
«وَكَانَ يَنهض بعلُوْمٍ جَمَّة، وَيُجيد النَّقل، وَيُحْسِنُ النّظم وَالنثر. وَفِيْهِ دِينٌ وَخير، وَمقَاصدُهُ جمِيْلَة، وَمُصَنّفَاتُهُ مُفِيدَة، وَقَدْ زهد فِي الرِّئَاسَة، وَلَزِمَ مَنْزِله مُكِبّاً عَلَى العِلْم، فَلَا نغلو فِيْهِ، وَلَا نَجْفو عَنْهُ، وَقَدْ أَثْنَى عَلَيْهِ قَبْلنَا الكِبَارُ». [السیر 18/ 187]
« وَلِي أَنَا مَيْلٌ إِلَى أَبِي مُحَمَّدٍ لمَحَبَّته فِي الحَدِيْثِ الصَّحِيْح، وَمَعْرِفَتِهِ بِهِ، وَإِنْ كُنْتُ لَا أُوَافِقُهُ فِي كَثِيْرٍ مِمَّا يَقولُهُ فِي الرِّجَالِ وَالعلل، وَالمَسَائِل البَشِعَةِ فِي الأُصُوْلِ وَالفروع، وَأَقطعُ بخطئِهِ فِي غَيْرِ مَا مَسْأَلَةٍ، وَلَكِن لَا أُكَفِّره، وَلَا أُضَلِّلُهُ، وَأَرْجُو لَهُ العفوَ وَالمُسَامحَة وَللمُسْلِمِيْنَ. وَأَخضعُ لِفَرْطِ ذكَائِهِ وَسَعَة علُوْمِهِ». [السیر 18/ 202]
جبکہ ابو بکر ابن العربی کا تذکرہ یوں کیا ہے:
«الإِمَامُ، العَلَاّمَةُ، الحَافِظُ، القَاضِي… صَاحِبُ التَّصَانِيْفِ». [السیر 20/ 197]
«وَصَنَّفَ، وَجَمَعَ، وَفِي فُنُوْن العِلْم بَرَعَ، وَكَانَ فَصِيْحاً، بَلِيْغاً، خَطِيْباً. صَنّف كِتَاب (عَارِضَةِ الأَحْوَذِيِّ فِي شَرْحِ جَامِع أَبِي عِيْسَى التِّرْمِذِيِّ) ، وَفسر القُرْآن الْمجِيد، فَأَتَى بِكُلِّ بَدِيْع». [السیر 20/ 199]
«وَاشْتُهِرَ اسْمُهُ، وَكَانَ رَئِيْساً مُحْتَشِماً، وَافر الأَمْوَال، بِحَيْثُ أَنشَأَ عَلَى إِشْبِيْلِيَة سُوراً مِنْ مَالِهِ». [السیر 20/ 200]
«وَكَانَ ثَاقب الذّهن، عذب الْمنطق، كَرِيْم الشَّمَائِل، كَامِل السُّؤْدُد، وَلِيَ قَضَاءَ إِشْبِيْلِيَة، فَحُمدت سيَاسته، وَكَانَ ذَا شِدَّة وَسطوَة، فَعزل، وَأَقْبَلَ عَلَى نشر العِلْم وَتَدوينه». [السیر 20/ 200]
«كَانَ القَاضِي أَبُو بَكْرٍ مِمَّنْ يُقَالَ: إِنَّهُ بلغَ رُتْبَة الاجْتِهَاد». [السیر 20/ 201]

ان اقتباسات سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ دونوں ہستیاں علم وفضل کے اعلی مقام پر فائز تھیں، لیکن چونکہ اہل ظاہر اور مالکیہ کی آپس میں سخت چپقلش تھی، اس وجہ سے ابن العربی نے ابن حزم رحمہ اللہ کو بہت سخت سست کہا بلکہ ظاہریت کو خارجیت کا پرتو قرار دے دیا۔
حافظ ذہبی رحمہ اللہ ابن حزم کی سوانح میں ابو بکر ابن العربی کا کلام ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
«لَمْ يُنْصِفِ القَاضِي أَبُو بَكْرٍ رحمه الله شَيْخَ أَبِيْهِ فِي العِلْمِ، وَلَا تَكَلَّمَ فِيْهِ بِالقِسْطِ، وَبَالَغَ فِي الاسْتخفَاف بِهِ، وَأَبُو بَكْرٍ فَعَلَى عَظمته فِي العِلْمِ لَا يَبْلُغُ رُتْبَة أَبِي مُحَمَّدٍ، وَلَا يَكَاد، فَرحمهُمَا الله وَغفر لَهُمَا». [السیر 18/ 190]
’قاضی ابو بکر رحمہ اللہ نے اپنے والد کے استاذ کے ساتھ انصاف نہیں کیا، عدل و انصاف سے گفتگو کرنے کی بجائے ان کی تحقیر میں مبالغہ آرائی سے کام لیا ہے، حالانکہ ابو بکر اپنی تمام تر جلالت و عظمت کے باوجود ابن حزم کی شان کو پہنچنا تو دور کی بات، علم وفضل میں ان کے قریب قریب بھی نہیں آتے، اللہ تعالی دونوں بزرگوں پر رحمت کرے اور بخشش عطا فرمائے’۔
ایک مقام پر لکھتے ہیں:
«وَكَانَ أَبُوْهُ أَبُو مُحَمَّدٍ مِنْ كِبَارِ أَصْحَاب أَبِي مُحَمَّدٍ بنِ حَزْم الظَّاهِرِي بِخلَاف ابْنه القَاضِي أَبِي بَكْرٍ، فَإِنَّهُ منَافر لابْنِ حَزْم، مُحِطٌّ عَلَيْهِ بنَفْس ثَائِرَة». [السیر 20/ 198]
’ابو بکر ابن العربی کے والد ابو محمد ابن العربی ابن حزم کے جلیل القدر تلامذہ میں سے ہیں، جبکہ بیٹا اس کے برعکس ابن حزم سے سخت برگشتہ اور متنفر تھا، بلکہ تنقید کرتے ہوئے سخت جذبات میں کھو جاتا تھا‘۔
ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
«وَلَمْ أَنقُمْ عَلَى القَاضِي رحمه الله إِلَاّ إِقذَاعَه فِي ذَمّ ابْن حَزْمٍ وَاسْتجهَالَه لَهُ، وَابْن حَزْمٍ أَوسع دَائِرَة مِنْ أَبِي بَكْرٍ فِي العُلُوْم، وَأَحْفَظ بِكَثِيْر، وَقَدْ أَصَاب فِي أَشيَاء وَأَجَاد، وَزلق فِي مضَايق كغَيْره مِنَ الأَئِمَّةِ، وَالإِنصَافُ عزِيز». [السیر 20/ 202]
مجھے قاضی ابوبکر سے یہ گلہ ہے کہ انہوں نے ابن حزم کی مذمت اور اسے جاہل ثابت کرنے میں اپنے مقام سے نیچے اتر کر غیر محتاط گفتگو کی ہے حالانکہ ابن حزم علوم وفنون میں ابوبکر سے فائق ہیں!!
بہرصورت اہل علم جانتے ہیں کہ اسلامی تاریخ میں کبار ائمہ اور اہل علم میں سے جس عالم دین نے سب سے زیادہ سخت زبان استعمال کی اور کشتوں کے پشتے لگائے، وہ بھی ابن حزم ہیں اور سب سے زیادہ جس پر سخت تنقید کی گئی، اور ان کی قدر و منزلت کو گھٹانے کی کوشش کی گئی شاید وہ بھی ابن حزم ہی ہیں۔
اسی وجہ سے حافظ ذہبی نے لکھا ہے:
«وَبسط لِسَانَه وَقلمَه، وَلَمْ يَتَأَدَّب مَعَ الأَئِمَّة فِي الخطاب، بَلْ فَجَّج العبَارَة، وَسبَّ وَجَدَّع ، فَكَانَ جزَاؤُه مِنْ جِنس فِعله، بِحَيْثُ إِنَّهُ أَعْرَضَ عَنْ تَصَانِيْفه جَمَاعَةٌ مِنَ الأَئِمَّةِ، وَهَجَرُوهَا، وَنفرُوا مِنْهَا، وَأُحرقت فِي وَقت…». [السیر 18/ 186]
’ابن حزم نے قلم و زبان دونوں کو یوں بے لگام چھوڑا کہ اہل علم اور ائمہ کرام کو مخاطب کرتے ہوئے آداب کا خیال رکھنے کی بجائے، سب و شتم اور سخت ترین اسلوب و تعبیرات ان کے گفتگو میں در آئیں!، چنانچہ الجزاء من جنس العمل کے مصداق ان کے ساتھ بھی یہی رویہ رکھا گیا، کہ وقت کے علماء و ائمہ نے ان کی تصانیف سے اعراض کیا، لوگوں کو اس سے متنفر کیا یہاں تک کہ ان کی کئی ایک تصانیف جلائی بھی گئیں’۔
ابوبکر ابن العربی تو ابن حزم کے بچوں جیسے تھے، لیکن ابن حزم کی جن مالکیوں کے ساتھ چپقلش رہی ہے اور جنہیں ابن حزم نے ترکی بہ ترکی جواب دیا ہے، وہ امام ابو الولید الباجی ہیں، اور جن سے اختلاف کے باوجود ابن حزم کا بڑا محبت والا تعلق رہا، اس کی مثال ابن عبد البر رحمہ اللہ ہیں۔

اس سارے سلسلے سے کچھ اسباق اخذ کیے جا سکتے ہیں، مثلا:

1۔ علم و فضل کی کوئی حد نہیں ہوتی اور نہ یہ کسی کی جاگیر ہے، لہذا جو بھی اہلیت رکھتا ہے، وہ اس وادی میں اخلاصِ نیت کے ساتھ قدم رکھے، فضا جس قدر بھی اس کے مخالف ہو گی، اللہ تعالی اس کے ذکر و فکر کو باقی رکھے گا۔

2۔ آپ دلیل و برہان کے جس بھی رتبے پر فائز ہیں، کبھی بھی آداب و اخلاق کا دامن نہ چھوڑیں، مخالف اہل علم کا ذکر اچھے طریقے سے کریں، کیونکہ منہ بند کروانے کے لیے صرف دلیل کافی ہے، جبکہ بات دل و دماغ تک پہنچانے کے لیے نرمی اور حکمت عملی بھی ضروری ہے۔

3۔ علماء پر تنقید کرکے اور انہیں سخت سست کہہ کر کوئی بھی شخص خود تنقید سے نہیں بچ سکتا، بھلا وہ ابن حزم رحمہ اللہ کی طرح امام زمانہ ہی کیوں نہ ہو۔

4۔ کسی کی غلط فکر اور رویے کا انکار کرتے ہوئے اس کی جلالتِ شان سے نہ گھبرائیں، اگر آپ میں اہلیت و قدرت ہے تو احقاق حق اور ابطال باطل کا فریضہ سر انجام دیں، لیکن یاد رکھیں کبھی بھی اعتدال کے دائرے سے باہر نہ نکلیں، نہ تو ابن حزم رحمہ اللہ کی طرح غلو کرین اور نہ ان کے ناقدین کی طرح جنہوں نے انہیں خوارج سے ملانے کی کوشش کی ہے۔

5۔ علمائے کرام اور ائمہ عظام کا اختلاف ہو جائے، تو کسی ایک کی طرف جھکاؤ کی بجائے عدل و انصاف والا موقف بیان کرنے کی کوشش کریں، راجح اور مرجوح ہر دو موقف کے قائلین علمائے کرام کا تذکرہ کرتے ہوئے ادب و احترام کو ملحوظ رکھیں، جیسا کہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ کے ہاں عموما دیکھنے کو ملتا ہے۔

#خیال_خاطر

یہ بھی پڑھیں:تحریر و تحقیق کے لیے استعمال ہونے والے کچھ اہم ٹولز