علمِ علل الحدیث اور تخریج کی اہمیت

فضیلۃ الشیخ عبد العزیز الطریفی حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
“دراسة علم العلل: من الأمور الدقيقة التي لا يستفيدها طالب العلم إلا بالتطبيق العملي، وذلك بأن يخرج خمسمائة حديث إلى ألف حديث، ويكثر من المحفوظات”.
’علم العلل ان دقیق اور پیچیدہ فنون میں سے ہے، جو سوائے عملی مشق کے سمجھ میں نہیں آ سکتے، اس کا طریقہ ہے کہ طالبعلم کم ازکم پانچ سو سے ہزار احادیث کی خود تخریج کرے اور نصوص (احادیث، رواۃ، ائمہ کے اقوال) کو بہ کثرت یاد کرے’۔
[ألف تغريدة في الفوائد الحديثية]

فضیلۃ الشیخ طریفی حفظہ اللہ کا قول اس طرح ہے کہ طالبعلم کو اس فن کی سمجھ بوجھ کے لیے پانچ سو سے ہزار احادیث کی تخریج خود کرنی چاہیے، تاکہ اسے معلوم ہو سکے کہ یہ فن اصل میں ہے کیا؟ متن کیا ہے؟ سند کیا ہوتی ہے؟ مدار کیا ہے؟ متابعت اور مخالفت میں کیا فرق ہے؟ اسی طرح شواہد و توابع وغیرہ اصطلاحات سے کیا مراد ہے؟ ثقہ، صدوق، لا بأس بہ، یعتبر بہ ولا یعتبر بہ…. وغیرہ درجنوں اصطلاحات ہیں، جو عملی تخریج کے بغیر سمجھ نہیں آسکتیں!

اور یہ بات صرف شیخ طریفی کی نہیں، بلکہ محدثین کا منہج ہے، لہذا اس فن کے طالبعلموں کے ہاں اس سلسلے میں پیش کیے جانے والے اقوال معروف ہیں، مثلا:
((لو لم نكتب الحديث من ستين وجهاً ما عقلناه))
((الباب إذا لم تجمع طرقه لا يوقف على صحة الحديث ولا على سُقمه))
((من أراد الفائدة فليكسر قلم النسخ وليأخذ قلم التخريج)).
((قلّما يتمهر في علم الحديث، ويقف على غوامضه، ويستثير الخفي من فوائده، إلاّ من جمع متفرقه وألف مشتته وضم بعضه إلى بعض …. فإنّ ذلك مما يقوي النفس، ويُثبت الحفظ … ويكشف المشتبه ويوضح الملتبس …)) .
((إذا اجتمعت طرق الحديث يُستدل ببعضها على بعض ويجمع بين ما يمكن جمعه ويظهر به المراد)).

البتہ شیخ طریفی حفظہ اللہ سے پہلے معلوم نہیں کہ کسی نے باقاعدہ تخریج احادیث کی اس طرح مقدار بیان کی ہو.. لیکن چونکہ شیخ معاصر ہیں، حدیث و علل میں مہارت کے ساتھ ساتھ ہمارے زمانے کے طالبعلموں کو بھی سمجھتے ہیں، اس لیے میرے خیال میں یہ بہت مناسب بات ہے کہ حدیث، رجال، مصطلح، علل وغیرہ میں دلچسپی رکھنے والے طالب علم کو کم ازکم اتنی تعداد میں احادیث کی تخریج ضرور کرنی چاہیے!!

طلیعۃ التبیین کے اندر شیخ علی الحلبی مرحوم نے شیخ طریفی کے اس قول کو ذکر کرکے تھوڑا تعجب کا اظہار کیا ہے!! شاید اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ صرف پانچ سو احادیث سے ملکہ کیسے پیدا ہوسکتا ہے؟
لیکن اگر شیخ طریفی کی بات کو مہارت کی بجائے اس فن کی سمجھ بوجھ کے ساتھ جوڑا جائے تو یہ مناسب بات ہے۔
یہاں اسی مناسبت سے یہ بات بھی فائدے سے خالی نہیں کہ ہمارے ہاں جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں کلیۃ الحدیث میں ماسٹر کے مقالے کے لیے کم از کم پانچ سو احادیث کا دراسہ و تخریج کے لیے انتخاب کرنا ضروری تھا۔
ایک عام حدیث (جس کی مباحث زیادہ طویل نہ ہوں) کی تخریج میں کم از کم ایک دن ضرور لگ جاتا ہے۔ اور بعض احادیث ایسی بھی ہوتی ہیں کہ ایک ایک حدیث پر دن اور ہفتے بھی لگ جاتے ہیں!
میرے ماسٹر کے مقالے میں چھ سو احادیث تھیں، جس کے لیے تین سال کا دورانیہ تھا۔ گو بہت محنت کرکے اسے چھ مہینے سال میں بھی کیا جا سکتا تھا، لیکن ایک دن میں پانچ سو سے ہزار کیا بلکہ سو، پچاس احادیث کی تخریج کی بات وہی کر سکتا ہے، جسے تخریج حدیث (بالخصوص جب اس کا تعلق علل کے ساتھ ہو) معلوم نہ ہو!!
اس فن کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس میں ایک ایک دو دو جملے اور سطریں لکھنے کے لیے گھنٹوں اور دنوں کی محنت درکار ہوتی ہے!
اور بعض دفعہ عالم دین یا طالبعلم درجنوں کتابوں کی خاک چھان کر بھی چند جملے لکھنے کے قابل نہیں ہو پاتا!
—————
اس تحرير كا پس منظر یہ ہے کہ بعض دوستوں نے شیخ طریفی کے اوپر بیان کردہ قول کا ترجمہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ طالبعلم کو علم علل میں مہارت کے لیے چاہیے کہ ’’روزانہ’’ پانچ سو سے ہزار احادیث کی تخریج کیا کرے!
اللہ تعالی ان دوستوں کے جذبے میں اضافہ فرمائے، لیکن ساتھ توفیق دے کہ عبارت کو سمجھ کر اس کا ترجمہ یا ترجمانی پیش کیا کریں!
ایسے دوست جو شیخ طریفی جیسے اہل علم کے اقوال کو اردو میں پیش کرنے کا ذوق و شوق رکھتے ہیں، وہ رابطہ کر لیں، حسب استطاعت انہیں مکمل رہنمائی اور مدد کریں گے. ان شاءاللہ۔
کیونکہ ہم الحمد للہ خود علمائے کرام کے اقوال زریں کو پوسٹ کارڈز کی شکل میں جمع کر رہے ہیں، جن میں سے شیخ طریفی، بلکہ اس سے پہلے ابن تیمیہ، ابن قیم وغیرہ تمام ائمہ کرام کے اقوال کو الگ الگ جمع کیا جا رہا ہے، تاکہ کسی بھی امام یا عالم کے نام پر کلک کرکے ان کے تمام اقوال ایک جگہ ملاحظہ کیے جا سکیں!!