ڈاکٹر محمد الغزالی بھی اپنے رب کے حضور پیش ہوگئے۔ انا لله وانا اليه راجعون. مجھے ڈاکٹر صاحب کا براہ راست شاگرد ہونے کا شرف تو حاصل نہیں ہوا مگر ان کے خطابات سننے اور ان کی حق گوئی اور جرأت مندی کے اظہار کا مشاہدہ بار بار کیا۔ جس استغنا، علمی شان اور بانکپن سے وہ موقف کا اظہار کرتے تھے وہ روایت ہمارے ہاں دم توڑ چکی ہے۔ ڈاکٹر صاحب اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے ادارہ تحقیقات اسلامی سے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی کچھ سال تک ادارے میں خدمات سرانجام دیتے رہے اور کئی سالوں سے سپریم کورٹ شریعت اپیلیٹ بینچ کے عالم جج تھے۔ واک کے شوقین تھے اور جن دنوں میں جی الیون اسلام آباد میں مقیم تھا اس دوران اکثر ان سے شام کے وقت واک کرتے ہوئے ملاقات ہو جاتی تھی۔ ایک بار میرے گھر بھی تشریف لائے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کی علمی و تدریسی خدمات کے بارے میں تو تذکرہ چلتا رہے گا مگر ان کی قومی و ملی خدمات کا بھی ایک خاموش باب ہے۔

18دسمبر 2023 علم وفضل کا یہ باب بند ہوگیا۔ ان کا عرصہ حیات تمام ہوا۔ مگر سوائے ان کے جنہوں نے ان سے اکتساب نور کیا کسی کو خبر ہی نہیں ہوئی۔ سوشل، پرنٹ الیکٹرونک میڈیا پر ’’مجازی جلسہ‘‘ کی شوریدگی، شورو غل اور ہنگامہ سانپ کے پھن کی طرح لہراتا رہا لیکن کسی کو فرصت تھی نہ دماغ کہ اس عظیم خسارے کی بھی نشاندہی کرسکے جو ڈاکٹر صاحب کی رخصت کی صورت ہمیں بطور قوم درپیش تھا۔ زندگی کے نشیب وفراز میں آدمی نہ جانے کہاں کہاں بھٹکتا رہتا ہے۔ کہا جاتا ہے انسانی دماغ کے دو ارب خلیات ہیں مگر متحرک اور مصروف عمل صرف چند ہزار ہی رہتے ہیں۔ یہ تحرک اور عمل بھی تب ہی مثبت رہ سکتا ہے جب کسی کی صحبت سعید میسر ہو۔

یہ بھی پڑھیں: قانون کی تعلیم کے لیے سٹیٹ آف دی آرٹ ادارہ، وقت کی ضروت

افسوس ہے کہ ہماری اولادوں کو ڈاکٹر محمود احمد غازی اور ڈاکٹر محمد الغزالی جیسی شخصیتوں سے استفادے کا موقع نہیں ملے گا اور آنے والی نسلیں یہ نہیں جان پائیں گی کہ علم کس طرح اپنے سچے اور کھرے حاملین کو شان استغنا عطا کرتا ہے۔ جامعات میں جس تیز رفتاری سے عہدوں کی لالچ کے مارے، خوشامدی کلچر میں پروان چڑھے، سوٹوں، بوٹوں اور ٹائیوں کے زور پر نمود و نمائش کرنے والے نام نہاد اساتذہ کا چلن عام ہوا ہے اس دور میں ہم کیسے کیسے نایاب لوگ کھو رہے ہیں!

عزیز الرحمٰن