جامعہ سلفیہ کے سابقہ ناظمين ومدیر التعلیم کا مختصر تعارف

ناظمين ومدیرالتعلیم
جامعہ کے داخلی امور کی دیکھ بھال کے لیے ایک ناظم مقرر کیا جاتا ہے جو طلبہ کی ضروریات کتب، رہائش،خوراک،اور دیگر ضروریات کی براہ راست نگرانی کرتاہے اساتذه طلبہ کی حاضری کو یقینی بناتا ہے۔ اورجامعہ سلفیہ کمیٹی کو جامعہ کی کارکردگی سے آگاہ کرتاہے۔
جامعہ کے قیام سے لے کراب تک جن حضرات نے خدمت سرانجام دی ان کے نام درج ذیل ہیں۔
(1)مولانامحی الدین احمد قصوری رحمہ اللہ
(2)شیخ الحدیث محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ
(3)فضیلة الشیخ عبید اللہ احرار رحمہ اللہ
(4)حافظ محمد اسماعیل ذبیح رحمہ اللہ
(5)فضیلة الشیخ محمد صدیق رحمہ اللہ
(6)فضیلة الشیخ ابو حفص عثمانی رحمہ اللہ
(7) فضیلة الشیخ محمد اسحاق چیمہ رحمہ اللہ
(8)فضیلة الشیخ حافظ ثناءاللہ مدنی رحمہ اللہ
(9)فضیلة الشیخ پروفیسرعبید الرحمن مدنی رحمہ اللہ
(10)شیخ الحدیث حافظ مسعود عالم صاحب حفظہ اللہ
(11)ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر رحمہ اللہ
(12)پروفیسر محمد یاسین ظفر حفظہ اللہ

( نوٹ :اس تحریر میں 6 ناظمين ومدیرالتعلیم کا تذکرہ کیا جائے گا باقی آئندہ پوسٹ میں ان شاءاللہ)
مولانا عبید الرحمن مدنی نے ناظم جامعہ کی بجائے “مدیر التعلیم” کا لقب اختیار کیا اور اب تک یہی منصب جاری ہے ان تمام حضرات کا مختصر تعارف زیل میں دیا گیا ہے
فضیلة الشیخ محى الدین احمد قصوری
جامعہ سلفیہ کے پہلے ناظم تعلیمات مولانا محی الدین احمد قصوری تھے۔ آپ کا انتخاب 1956ءکو گوجرانوالہ کانفرنس کے موقعہ پر کیاگیا تھا۔ مولانا اپریل
1889ءکوقصور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مولانا عبدالقادر قصوری اپنے وقت کے ممتاز عالم دین اور معروف سیاسی رہنما تھے۔ مولانا محی الدین قصوری نے ایک عرصہ مولانا ابوالکلام آزاد کے ساتھ بھی گزارا۔ بہت فاضل اور عقل مند انسان تھے۔ آپ نے 82 سال کی عمر میں 24 جنوری 1971ء لاہور میں رحلت فرمائی اور قصور میں دفن ہوئے۔
شیخ الحدیث محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ
آپ مختصر مدت کے لیے ناظم تعلیمات منتخب ہوئے۔ کیونکہ آپ مرکزی جمعیت اہل حدیث کے ناظم اعلی بھی تھے۔
(سلفی صاحب رحمہ اللہ کے حالات زندگی پہلی قسط میں موجود ہیں )
فضیلة الشیخ عبید الله احرار رحمہ اللہ
مولانا عبیداللہ احرار رحمہ اللہ 1950ءکے لگ بھگ فیروز پور میں پیدا ہوئے۔ آپ کا خاندان شروع ہی سے دیندار اور شریعت پر سختی سے کار بند تھا۔ ایسے ماحول میں تعلیم و تربیت کا آغاز ہوا۔ قیام پاکستان تک ہندوستان میں کئی تحریکیں چلیں۔ ایسے حالات میں آپ پر بھی ان کا گہرااثرہوا۔ اور
خصوصاً مجلس احرار کی فکر اور انداز سے بہت متاثرہوئے۔ اور علمی طور پر مجلس احرار میں شامل ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد لائل پور منتقل ہوئے۔ یہاں آپ کی دینی وسیاسی وابستگی مرکزی جمعیت اہل حدیث کے ساتھ ہوئی۔ اور تادم مرگ ان کی مجلس عاملہ کے رکن رہے تھے۔ آپکو اکابرین کا بے پناہ اعتماد حاصل تھا۔ خصوصا مولانا سید محمد داؤد غزنوی رحمہ اللہ، مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ آپ سے آپ گہرا تعلق رکھتے تھے۔
جامعہ سلفیہ کے بانی رکن تھے۔ اس کے قیام میں آپنے نمایاں کردار ادا کیا۔ چونکہ آپ لائل پور میں رہائش پذیر تھے۔ لہذا جامعہ سلفیہ کی عمر کی حکمرانی آپ کے
سپردکی گئی۔ آپ نے دل و جان سے یہ فریضہ سر انجام دیا۔ خوب بھاگ دوڑ کی۔ دن رات محنت کی لوگوں سے تعاون اکٹھا کیا ۔ تمام امور کی خود نگرانی فرماتے۔
زیادہ وقت جامعہ میں گزارتے۔ جامعہ کے لیے ان کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ اور ان کے تذکرے کے بغیر جامعہ کا ذکر نامکمل ہے۔ جن حضرات نے
ان کو دیکھا اور ان کے کام سے آگاہ ہیں ۔ آج بھی بہت اچھے لفظوں میں انہیں یاد
کرتے ہیں۔مولانا ہردلعزیز تھے۔ تمام مکاتب فکرکے لوگ ان کی بڑی قدر کرتے تھے۔ اور تمام طبقوں میں یکساں مقبول تھے۔ مولانا
نے اپنی زندگی دینی کاموں کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ مرکزی جمعیت اہلحدیث کے ساتھ گہری وابستگی آخر وقت تک قائم رہی۔ جب کہ جامعہ سلفیہ کی تعمیر وترقی میں ان کا خون پسینہ شامل ہے۔
خشت اول سے لیکرپہلے بلاک کی تعمیر تک مسلسل جامعہ سے وابستہ رہے۔ مولانا نے بھر پور زندگی گزاری۔ اور آخر کار 20 فروری 1975ء کو رحلت فرمائی۔فیصل آباد میں نماز جنازہ مولانا
عبدالله (جھال والے) نے پڑھائی۔ اور بڑے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے ۔ اللهم اغفر له ….
حافظ محمد اسماعيل ذبیح رحمہ اللہ
آپ جامعہ سلفیہ کے ناظم تعلیمات مقرر ہوئے۔ بڑی دلچسپی سے کام کی نگرانی کرتے تھے۔ آپ بہت مہمان نواز تھے بہترین مقرر تھے۔ خوش آواز اور خوش اطوارتھے۔
مولانامحمد اسمٰعیل سلفی رحمہ اللہ کے شاگرد تھے۔ مدرسہ رحمانیہ دہلی میں بھی کچھ عرصہ تعلیم حاصل کی۔ قیام پاکستان کے بعد پہلے مغل پورہ میں خطیب مقرر ہوئے۔
اس کے بعد راولپنڈی کی مرکزی جامع مسجد اہل حدیث میں خطیب مقرر ہوئے۔ اور اپنی وفات تک یہ فریضہ سر انجام دیتے رہے۔ جامعہ سلفیہ کے لیے آپ کی
خدمات ہمیشہ یادرکھی جائیں گی۔ آپ نے 2 مئی 1975ء کو راولپنڈی میں وفات پائی۔ اور پنڈی میں دفن ہوئے۔
فضیلة الشیخ محمد صديق رحمه الله
مولانامحمد صدیق خان بلوچ تاندلیانوالہ کے قریب کرپالہ گاؤں میں 4 فروری 1921ء کو پیدا ہوئے۔ آپ کا پہلا نام صادق علی تھا۔ لیکن ایک دینی علوم پڑھتے ہوئے آپ نے اپنا نام محمد صدیق رکھ لیا ۔ آپ نے بڑی عمر میں دینی تعلیم حاصل کرنا شروع کی۔ مولانا محمد باقر کے مدرسہ جھوک دادو کا رخ کیا۔
ان کی شفقت محبت اور خصوصی توجہ سے آپ نے تعلیم مکمل کی۔ آپ کے اساتذہ میں مولانا حافظ عبداللہ بڈھیمالوی مرحوم بھی شامل ہیں۔ آپ بہت جرات مند بہادر اور نڈر تھے۔ آپ لاجواب اور مثالی خطیب تھے۔ بہت مرتب گفتگو کرتے ۔ بہت اچھا شعری ذوق رکھتے۔اور اپنی تقریر کو اشعار سے مزین فرماتے تھے۔ شیعیت پر وسیع مطالعہ تھا۔ اور اہم امتیازی مسائل میں مناظرہ کرتے تھے۔ جامع مسجد امین پور بازار میں خطیب مقرر ہوئے۔ تو آپ کی
علمی اور عوامی گفتگو نے لوگوں کے دل موہ لیے۔ جامع مسجد میں جگہ کم پڑجاتی اور اکثر بازار کو بند کرکے صفیں بچھائی جاتی تھیں۔ کتاب وسنت کی دعوت عام دیتے ۔ اور آپ کی موثر گفتگو سے متاثر ہوکر لا تعداد لوگوں نے اپنی فکر اور نظریہ وتبدیل کیا۔ اور آج فیصل آباد میں اہل حدیث مکتبہ فکر کو اہمیت حاصل ہے۔ یہ
مولانا کی کوششوں کا نتیجہ ہے آپ کا جامعہ سلفیہ کے ساتھ بھی بڑا گہراتعلق رہا۔ ابتداء میں آپ دیگر رفقاء مثلا مولانا محمد رفیق مدن پوری رحمہ اللہ، مولانا محمد اسحاق چیمہ کے ہمراہ دیہاتوں میں بھی جاتے۔
اور جامعہ کے لیے گندم اور تعاون حاصل کرتے تھے۔1956ء میں جامع سلفیہ میں پہلا تعلیمی سال شروع ہوا چنانچہ مولانا صدیق صاحب کو جامعہ کا ناظم مقرر کیا گیا چند سال بعد مولانا اسحاق چیمہ کو ناظم مقرر کر دیا گیا تھا کچھ عرصہ بعد دوبارہ مولانا صدیق صاحب کو ناظم مقرر کر دیا گیا آخری عمر تک وہ اس عہدے پر فائض رہے مولانا جامعہ کے مدیرالتعلیم بھی مقرر ہوئے مولانا محمد صدیق مصنف بھی تھے انہوں نے جامعہ کے لیے بہت سی اہم خدمات سرانجام دی مولانا صدیق صاحب طویل علالت کے بعد 12 ستمبر 1989ء کو وفات پائی انہی کے آبائی گاؤں کرپالہ متصل تاندلیانوالہ میں سپرد خاک کیا گیا۔
فضیلة الشیخ ابوحفص عثمانی رحمہ اللہ
مولانا ابو حفص عثمانی 1910ء میں موضع راجل ضلع ڈیرہ غازی خاں میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی زندگی بڑی غربت میں گزاری۔
تعلیم کا آغاز علاقے کے مشہور بزرگ سردار احمد خاں سے حاصل کی۔ بعد ازاں ملتان جاکر مولانا عبد التواب ملتانی رحمہ اللہ سے درس نظامی کی کتابیں پڑھیں۔ آپ کے
اساتذہ میں مولانامیر ابراہیم سیالکوئی بھی شامل ہیں۔ بہت اچھی گفتگو کرتے تھے۔ وعظ اور درس دیا کرتے تھے۔ سرکاری ملازمت کے سلسلے میں آپ خوشاب میں
تھے۔ کہ میاں فضل حق صاحب سے ملاقات ہوگئی۔ انہوں نے جامعہ سلفیہ میں مدیر التعلیم کی خدمت سر انجام دینے پر راضی کرلیا۔ لہذا سرکاری ملازمت کو خیر باد کہا۔ اور جامعہ سلفیہ تشریف لے آئے۔ کئی
سال تک اس منصب پر خدمت سرانجام دیتے رہے۔ بعد ازاں واپس ڈیرہ غازیخاں تشریف لے گئے ۔ اور مرکزی جامع مسجد اہل حدیث کے خطیب مقرر ہوگئے۔آپ دو مرتبہ جامعہ کے مدیرالتعلیم رہے۔
دوسری مرتبہ 1976ء میں جب پروفیسر مولانا عبید الرحمن صاحب نے مدیر التعلیم کے منصب سے بوجوہ استعفی دے دیا۔ تو میاں فضل حق رحمہ اللہ نے انہیں دوبارہ
مدیر التعلیم مقرر کردیا۔ دوسرے دور میں آپ کافی کمزور ہوچکے تھے۔ اس کے باوجود انتظامات پرکافی گرفت تھی ۔طلبہ نظم ونسق کی سختی سے پابندی کرتے تھے۔ لیکن کمزوری اور طبیعت کی خرابی کے باعث آپ نے استعفیٰ دے دیا۔ اور واپس اپنے گاؤں آڑہ دائرہ دین پناہ چلے گئے۔ اور وہیں 29 مارچ 1982 کو خالق حقیقی سے جاملے۔ آپ کا جنازہ
مولانا فضل کریم نے پڑھایا۔ اور وہیں دفن ہوئے۔
(ماخذ: جامعہ سلفیہ تاریخ کے آئینہ میں
مرتب: حافظ فاروق الرحمن یزدانی حفظہ اللہ )

●ناشر: حافظ امجد ربانی
●متعلم:جامعہ سلفیہ فیصل آباد

یہ بھی پڑھیں: بے حیائی کا عالمی دن (ویلنٹائن ڈے)