جنونِ وفا کی تصویر۔۔۔اہلِ کشمیر

سختیوں اور تلخیوں کے آزار میں گندھے لیل و نہار اگر برسوں پر محیط ہو کر کئی نسلوں میں منتقل ہو جائیں، تو توانا اور جوان رعنا نسلیں بھی نڈھال اور نزار ہو جاتی ہیں۔ جذبوں کا جیسا بھی ہلچل مچاتا اور ٹھاٹھیں مارتا طوفان ہو، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اتر ہی جایا کرتا ہے۔سیلاب کی طوفانی موجیں بھی تو چند دنوں پر ہی محیط ہوتی ہیں اور پھر کچھ عرصے بعد سیلابی زمین بھی خشک ہونے لگتی ہے۔ مگر مقبوضہ وادی کے لوگ کچھ ایسی مَحبّت مآب موجیں اپنے دلوں میں بپا کیے ہوئے ہیں کہ نصف صدی سے زائد عرصہ بیت جانے کے باوجود آج تک ان میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ایک طویل سخت کوشی اور سخت جانی کے باوجود بھی ان کے یہ تلاطم خیز جذبات و احساسات سرد نہیں پڑے۔وہ حرماں نصیب لوگ صرف دردِ جدائی میں ہی مبتلا نہیں، ان کے آنگنوں میں صرف ہجر کی رُتیں ہی نہیں پھوٹ پڑیں بلکہ آٹھ لاکھ بھارتی فوج کے ظلم اور درندگی کے مصائب بھی ان کے جسموں میں گھل گئے ہیں۔
تُو تو آسودہ ء راحت ہے تجھے کیا معلوم؟
درد انسان کی بنیاد ہلا دیتے ہیں
اضطراب اور اذیت کی جان کاہ راتوں میں ڈری سہمی مائیں اور بہنیں اپنی آنکھوں میں ہمارے ساتھ رہنے کے سپنے سجائے بیٹھی ہیں۔ہماری مَحبّتیں ان عفت مآب ماؤں کے دلوں میں ہر ظلم اور سربریت سہنے کا حوصلہ پیدا کر دیتی ہیں۔ سنگینوں اور بندوقوں کے سائے تلے بھی ان کے دل ہمارے ساتھ دھڑکتے ہیں۔انھوں نے نصف صدی قبل ہماری چاہتوں کے حصار میں رہنے کا فیصلہ کیا تھا اور اب تک کوئی ظلم اور جبر اُن کے اس فیصلے میں دراڑیں نہ ڈال سکا۔کیا دنیا میں آج تک کسی نے چاہتوں کی ایسی داستان سنی اور پڑھی ہے کہ جو اہلِ کشمیر کے قول و عمل میں ہمارے لیے موجزن ہے؟ ایک لاکھ سے زائد جانیں قربان کر کے اور پندرہ ہزار سے زیادہ افراد کو گُم کروا کے بھی ان کی جبینوں پر ہماری ہی مَحبّت کندہ ہے۔کتنی ہی بار وفورِ جذبات سے سرشار ہزاروں کشمیری لوگ پاکستانی پرچم اٹھا کر سڑکوں پر نکل آتے ہیں، ہر طرف پاکستانی پرچموں کی ایمان آفریں بہار دلوں میں عجیب تلاطم اور نکھار پیدا کر دیتی ہے۔ ” کشمیر بنے گا پاکستان” کے نعرے اور پاکستانی پرچموں کو دیکھ کر بھارتی چھاتی پر سانپ لوٹ جاتے ہیں۔سیخ پا بھارتی فوج گولیاں برسا دیتی ہے وہ لاٹھی چارج کر دیتی ہے مگر کئی عشروں پر پھیلی مَحبّت کے سامنے سدّ راہ بننے کے لیے یہ گولیاں محض پٹاخوں کی حیثیت رکھتی ہیں۔
پاکستانی پرچموں کو لہراتے وقت اہلِ کشمیر درحقیقت اپنے دل لہرا رہے ہوتے ہیں۔وہ گولیوں کی سنسناہٹ اور گولوں کی گھن گرج میں بیچ چوراہے پر نکل کر، ہمارے جھنڈے لہرا لہرا کر بھارت کو دِکھاتے ہیں کہ پاکستان ہمیں اپنی جانوں سے بھی پیارا ہے۔کیا جذبات و احساسات کی صداقت اور نزہت کا اس سے بھی بڑا کوئی ثبوت ہو سکتا ہے کہ کوئی گولیوں کی برسات میں سینہ تان کر کھڑا ہو جائے؟ اگر پاکستان میں بھی کسی جگہ گولیاں چلنے کی آوازیں سنائی دیں تو ہمارے دل دہل جاتے ہیں اور ہم اپنے بچّوں اور جوانوں کو وہاں جانے سے روک دیتے ہیں، مگر کشمیریوں کا جنونِ وفا دیکھیے کہ وہ اپنے جرمِ مَحبّت کا اعتراف کرنے کے لیے اپنی جانوں کی پروا نہ کر کے، دیوانہ وار امڈ آتے ہیں۔
نہتّی مگر جان قربان کر ڈالنے والی مَحبّتوں کی اس طغیانی کے سامنے آٹھ لاکھ بھارتی فوج آج ناکام و نامراد اور خائب و خاسر ہو چکی ہے، اسی لیے بھارت مزید فوج بھیجنے کا اعلان کرتا رہتا ہے کہ کسی طرح ان بے کراں باغی عقیدتوں کو پا بہ زنجیر کر دیا جائے، مگر احمق اور پاگل بھارتی حکومت کو کیا خبر کہ وارفتگی اور وابستگی کے ایسے طوفانِ بلاخیز کے سامنے دنیا کی ہر طاقت تارِ عنکبوت ہی ثابت ہوا کرتی ہے (ان شا ء اللہ)
مقبوضہ وادی ہماری موت اور زندگی کا مسئلہ ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ جب ہم کشمیریوں کے بامِ دل پر سجا مَحبّتوں کا عنوان ” پاکستان ” دیکھتے ہیں تو ہماری یہ مجبوری دوچند ہو جاتی ہے۔نواز شریف ہو یا عمران خان، ان کے دل کے خوابیدہ احساسات میں بیداری کا کوئی امکان یہ سوچ کر بھی کیوں پیدا نہیں ہوتا کہ اہلِ کشمیر تو بھارتی فوج کے سامنے بھی ہمارے ساتھ رہنے کے نعرے لگاتے ہیں، اور ایسے نعرے لگانا کوئی اتنا سہل اور آسان تو نہیں۔ وفاؤں کی یہ داستانیں دیکھ کر تو پتھریلے دل رکھنے والے اہلِ جفا بھی وفائیں کرنے کی قسمیں اٹھا لیتے ہیں، مگر پاکستانی حکمران مسئلہ ء کشمیر کے حل کے لیے سنجیدہ اور متین کوششیں کیوں نہیں کرتے؟ ہر علاقے کی لوک داستانیں معروف ہیں لیکن اگر یہ جدید دنیا ” گلوبل ویلج ” بن چکی ہے تو اس ساری دنیا کی لوک کہانی کشمیر کے اہلِ وفا لوگوں نے ایک طویل تسلسل کے ساتھ اپنی جانیں قربان کر کے رقم کی ہے۔اب ذرا ہم بھی دیکھیں کہ ہم ویسے ہی جذبات کے جلو میں زندہ و جاوید ہیں یا نہیں؟ لاریب ہماری ہزاروں ماؤں نے اپنے گھبرو جوانوں کو ناز و نعم سے پال پوس کر، تحریک آزادیِ کشمیر کو جِلا بخشنے کے لیے خوشی کے ساتھ روانہ کر دیا۔یہ بات محض لکھنی اور پڑھنی تو بڑی ہی آسان ہے مگر اپنے جگر گوشوں کو کشمیر کی طرف روانہ کر دینا بڑے ہی دل گردے کا کام ہے۔ ہمارے ہزاروں نوجوان آج جنت نظیر کشمیر میں دفن ہیں۔ہمیں ان ماؤں اور ان شہدا پر فخر ہے۔ یقیناً یہ ایک گراں مایہ اعزاز اور افتخار ہے مگر لمحہ ء فکریہ یہ ہے کہ حکومتی سطح پر تحریک آزادیِ کشمیر کے لیے کس قدر کوششیں کی جا رہی ہیں؟ پاکستانی حکمرانوں سے ہر کشمیری پیر نصیر الدین نصیر کی طرح یوں سوال کناں ہے کہ:-
کیا تم نہیں ہمارا سہارا، جواب دو؟
آنکھیں ملاؤ ہم کو ہمارا جواب دو
تم ناخدا تھے اور تلاطم سے آشنا
کشتی کو کیوں ملا نہ کنارا جواب دو؟
وہ جو ہمارے سنگ جینا مرنا چاہتے ہیں، کیا وجہ ہے کہ ہم انھی کے دشمن کے ساتھ دوستی کے گہرے رنگ وابستہ کرنے کے لیے ہر طریقہ اور ہر ڈھنگ استعمال کر رہے ہیں؟ اس سوال کا جواب تو آپ بھی سوچیے اور عالمی حالات پر گہری نظریں رکھنے والے تجزیہ کار بھی غور کریں کہ ایک طرف اہلِ کشمیر کی مَحبّتوں کا یہ بے محابا طوفان ہے اور دوسری سمت کبوتروں اور غباروں سے خوف زدہ بھارتی فورسز، کیا یہ ڈری سہمی بھارتی فوج ان بے کراں جذبوں کو روک سکتی ہے۔

( انگارے۔۔۔حیات عبداللہ )

یہ بھی پڑھیں: آپ کو قبض نہیں ہوتی!