’’کفار کی عیدوں میں شرکت کی حرمت پر اجماع‘‘
کافروں کے مذہبی تہواروں میں شرکت، چاہے عملا ہو یا محض مبارکباد دینے کی حد تک قولا ہو، بالاجماع حرام ہے، تمام علماء و فقہاء اس کی حرمت پر متفق ہیں۔
⇚شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (٧٢٨هـ) فرماتے ہیں:

ونص الامام أحمد على أنه لا يجوز شهود أعياد اليهود والنصارى، واحتج بقول الله تعالى: ﴿والذين لا يشهدون الزور﴾ [الفرقان: ٧٢]. وهو قول مالك وغيره، لم أعلم أنه اختلف فيه

’’امام احمد رحمہ اللہ سے منصوص ہے کہ یہود و نصاریٰ کی عیدوں میں شرکت جائز نہیں، انہوں نے فرمانِ الہی (وہ باطل میں شریک نہیں ہوتے) سے استدلال کیا ہے، یہی امام مالک رحمہ اللہ وغیرہ کا قول ہے اور میرے علم کے مطابق اس میں کوئی اختلاف نہیں۔‘‘ (الفتاوى الكبرى : ٢/ ١٠٠)

مزید پڑھیں: کرسمس ڈے اور اسلامی تعلیمات (1)

⇚امام ابن قیم رحمہ اللہ (٧٥١هـ) فرماتے ہیں:

لا يجوز للمسلمين ممالأة المشركين في شعائرهم، وكما أنهم لا يجوز لهم إظهاره، فلا يجوز للمسلمين ممالأتهم عليه، ولا مساعدتهم، ولا الحضور معهم، باتفاق أهل العلم الذين هم أهله

’’مسلمانوں کے لیے مشرکین کے شعائر میں خیر سگالی وتعاون جائز نہیں، اسی طرح اُن کے لیے اپنے شعائر کا اظہار جائز نہیں ۔ لہذا مسلمانوں کا اُن کے ساتھ معاونت و مساعدت کرنا اور ان کے ساتھ شرکت کرنا حقیقی اہلِ علم کے ہاں بالاتفاق ناجائز ہے۔‘‘ (أحكام أهل الذمة : ٣/ ٢٣٨)

أما التهنئة بشعائر الكفر المختصة بهم، فحرام بالاتفاق، مثل أن يهنئهم بأعيادهم، وصومهم فيقول: عيد مبارك عليك، أو تهنأ بهذا العيد، ونحوه، فهذا إن سلم قائله من الكفر، فهو من المحرمات

’’کفر کے شعائر جو اُنہی کے ساتھ خاص ہیں ان کی مبارک باد دینا بالاتفاق حرام ہے، جیسے کوئی ان کی عید یا روزے کی مبارک باد دیتے ہوئے کہے کہ آپ کو عید مبارک یا آپ کو اس عید کی خوشیاں نصیب ہوں وغيرہ، ایسا کہنے والا اگرچہ کفر سے بچ جاتا ہے لیکن یہ کام حرام ضرور ہے۔‘‘ (المصدر السابق : ١/ ٢٣٤)

(حافظ محمد طاهر)