اہل علم کی ایک جماعت نے سلف وخلف کا اس مسئلے میں اجماع نقل کیا ہے کہ وہ زمین کے گول ہونے کے قائل تھے۔ اجماع کے دعوی میں کچھ مبالغہ ضرور ہو سکتا ہے کہ بعض اہل علم نے زمین کو چپٹا بھی کہا ہے لیکن کم از کم یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اکثر اہل علم کی رائے یہی رہی ہے کہ زمین گول ہے۔ اور وہ اس بات کو قرآن مجید کی آیات سے اس وقت ثابت کر رہے تھے جبکہ ابھی ماڈرن سائنس پیدا بھی نہ ہوئی تھی۔ اگرچہ بعض اہل علم قدیم زمانے کی علم فلکیات سے بھی اس مسئلے میں استدلال کرتے رہے ہیں۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ [متوفی 728ھ] لکھتے ہیں: اعْلَمْ أَنَّ الْأَرْضَ قَدْ اتَّفَقُوا عَلَى أَنَّهَا كُرَوِيَّةُ الشَّكْلِ وَهِيَ فِي الْمَاءِ الْمُحِيطِ بِأَكْثَرِهَا۔ [مجموع الفتاوى: (5/ 150)]۔ ترجمہ؛ واضح رہے کہ اہل علم کا اس پر اتفاق ہے کہ زمین اپنی شکل وصورت میں گول ہے اور اس کا اکثر حصہ پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ایک اور مقام پر لکھتے ہیں: وَكَذَلِكَ أَجْمَعُوا عَلَى أَنَّ الْأَرْضَ بِجَمِيعِ حَرَكَاتِهَا مِنْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ مِثْلُ الْكُرَةِ. قَالَ: وَيَدُلُّ عَلَيْهِ أَنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالْكَوَاكِبَ لَا يُوجَدُ طُلُوعُهَا وَغُرُوبُهَا عَلَى جَمِيعِ مَنْ فِي نَوَاحِي الْأَرْضِ فِي وَقْتٍ وَاحِدٍ بَلْ عَلَى الْمَشْرِقِ قَبْلَ الْمَغْرِبِ. قَالَ: فَكُرَةُ الْأَرْضِ مُثَبَّتَةٌ فِي وَسَطِ كَرَّةِ السَّمَاءِ كَالنُّقْطَةِ فِي الدَّائِرَةِ. [مجموع الفتاوى: (25/ 195)]

ترجمہ: اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ زمین اپنی بری وبحری تمام حرکات سمیت گول ہے۔ اس کے گول ہونے کی دلیل یہ ہے کہ تمام اہل زمین پر سورج، چاند اور ستارے ایک ہی وقت میں طلوع نہیں ہوتے بلکہ مغربی علاقوں سے پہلے مشرقی علاقوں میں طلوع ہوتے ہیں۔ اور زمین کا گولا، آسمان کے گولے کے بالکل درمیان میں ایسے ہی معلق ہے جیسا کہ دائرے کا مرکز، دائرے کے سینٹر میں ہوتا ہے۔
امام ابن حزم رحمہ اللہ [متوفی 456ھ ] لکھتے ہیں: إِن أحد من أَئِمَّة الْمُسلمين الْمُسْتَحقّين لاسم الْإِمَامَة بِالْعلمِ رَضِي الله عَنْهُم لم ينكروا تكوير الأَرْض۔ [الفصل في الملل والأهواء والنحل: (2/ 78)] ترجمہ: مسمانوں میں کوئی ایسا صاحب علم کے جس کے لیے امام کا لفظ بولنا مناسب ہو، آپ کو ایسا نہ ملے گا کہ اس نے زمین کے گول ہونے کا انکار کیا ہو۔

تحریر: ایچ ایم زبیر