خواتین سے متعلقہ روزے کے چند اہم مسائل

✿ پہلا مسئلہ: روزے کی رُخصت

اللہ تعالی نے فطری ایام (حیض و نفاس کی حالت) میں عورت کے لیے آسانی رکھی ہے کہ وہ روزہ نہیں رکھے گی، بلکہ اس حالت میں روزہ رکھنا اس پر حرام ہے، یہ تمام مسلمانوں کا اجماعی و اتفاقی مسئلہ ہے، نبی کریم ﷺ کے زمانے اور پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور سے لے کر آج تک کسی صحیح العقیدہ مسلمان عام و خاص نے اس میں کوئی اختلاف نہیں کیا، موجودہ دور میں دو چار متجددین حبِّ شہرت سے مجبور ہو کر فکرِ حروریہ کی بنیاد پر عورت سے ان ایام میں روزے کی رخصت چھین کر اسے فرض قرار دینے کی نامراد سعی کرتے ہیں جو کہ طریقِ اسلام سے ہٹ کر دینِ جدید ہے۔
⇚۔ حالانکہ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

أَلَيْسَ إِذَا حَاضَتْ لَمْ تُصَلِّ وَلَمْ تَصُمْ فَذَلِكَ نُقْصَانُ دِينِهَا.

’’کیا ایسا نہیں ہوتا کہ عورت پر حائضہ ہوتی ہے تو نہ نماز پڑھ سکتی ہے اور نہ روزہ رکھ سکتی ہے، یہی اس کے دین کا نقصان ہے۔‘‘ (صحیح بخاری : ١٩٥١)
یہ حدیث اس مسئلے میں بالکل صریح ہے۔
⇚اسی طرح سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :

كُنَّا نَحِيضُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ نَطْهُرُ، فَيَأْمُرُنَا بِقَضَاءِ الصِّيَامِ، وَلَا يَأْمُرُنَا بِقَضَاءِ الصَّلَاةِ.

’’ہم رسول اللہ ﷺ کے دور میں حائضہ ہوتیں، پھر جب پاک ہو جاتیں تو آپ ہمیں روزے کی قضاء کا حق دیتے جبکہ نماز کی قضاء کا حق نہیں دیتے تھے۔‘‘ (سنن الترمذی : ٧٨٧، صحیح بخاری : ٣٢١)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا فرمانا کہ پھر جب ہم پاک ہو جاتیں تو روزے کی قضاء کا حکم دیا جاتا تھا، یہ بھی اس مسئلے میں واضح و صریح دلیل ہے اور اسی پر مسلمانوں کا اتفاق ہے۔
⇚چنانچہ حافظ نووی رحمہ اللہ (٦٧٦هـ) فرماتے ہیں :

هذا الحُكمُ متَّفقٌ عليه، أجمع المسلمونَ على أنَّ الحائِضَ والنُّفَساءَ لا تجب عليهما الصَّلاةُ ولا الصَّومُ في الحال.

’’یہ متفق علیہ حکم ہے، مسلمانوں کا اجماع ہے کہ حائضہ اور نفاس والی عورت پر اس حالت میں نماز اور روزہ واجب نہیں۔‘‘ (شرح صحیح مسلم : ٤/ ٢٦)
⇚نیز حافظ ابن حزم (مراتب الإجماع : ٣٩) اور علامہ شوکانی (نيل الأوطار : ٢/ ٢٨٠) رحمہما اللہ نے بھی اس پر اجماع نقل کیا ہے۔
نیز اس حالت میں روزہ رکھنا ناجائز و حرام ہے اس پر بھی مسلمانوں کا اتفاق ہے۔
⇚۔ جیسا کہ امام ابن جریر رحمہ اللہ (٣١٠هـ) فرماتے ہیں :

أجْمَعُوا عَلى أنَّ عَلَيْها اجْتِنابَ كُلِّ الصَّلَواتِ فَرْضِها ونَفْلِها واجْتِنابَ جَمِيعِ الصِّيامِ فَرْضِهِ ونَفْلِهِ.

’’علماء کا اجماع ہے کہ عورت (حیض و نفاس میں) تمام فرضی ونفلی نمازوں اور تمام فرضی ونفلی روزوں سے اجتناب کرے گی۔‘‘ (اختلاف الفقهاء كما فى المجموع للنووي : ٢/ ٣٥١)
⇚حافظ نووی رحمہ اللہ (٦٧٦هـ) فرماتے ہیں :

فأجمعَتِ الأمَّةُ على تحريمِ الصَّومِ على الحائِضِ والنُّفَساءِ.

’’امت مسلمہ کا اجماع و اتفاق ہے کہ حائضہ اور نفساء کے لیے روزہ رکھنا حرام ہے۔‘‘ (المجموع شرح المهذب : ٢/ ٣٥٤)
⇚شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (٧٢٨هـ) فرماتے ہیں :

يحرم على الحائض الصلاة والصيام بالنص والإجماع.

’’حائضہ کے لیے نماز اور روزہ رکھنا نص اور اجماع کی بنیاد پر حرام ہے۔‘‘ (مجموع الفتاوى : ٢٦/ ١٧٦)
اس پر امام ترمذی (تحت الحدیث : ٧٨٧)، علامہ ابن رشد (بدية المجتهد : ١/ ٩٢)، ابن قدامہ (المغني : ١/ ٣٨٧)، قرطبی (الجامع لأحكام القرآن : ٣/ ٨٢)، صنعانی (١/ ١٥٥) اور شوکانی (نيل الأوطار : ١/ ٣٤٨) رحمہم اللہ نے بھی اجماع نقل کیا ہے۔

✿ دوسرا مسئلہ: چھوڑے روزوں کی قضا

فطری ایام میں چھوڑے گئے روزوں کی قضا ضروری ہے، دیگر ایام میں عورتیں اُن ایام کی گنتی پوری کریں گی۔
⇚ جیسا کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :

«كَانَ يُصِيبُنَا ذَلِكَ، فَنُؤْمَرُ بِقَضَاءِ الصَّوْمِ، وَلَا نُؤْمَرُ بِقَضَاءِ الصَّلَاةِ».

ہمیں (رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں) حیض آتا تھا تو روزوں کی قضا دینے کا حکم دیا جاتا تھا، نماز کی قضا کا حکم نہیں دیا جاتا تھا ۔(صحیح بخاری : ٣٢١، صحیح مسلم : ٧٦٣/٣٣٥ واللفظ له)
⇚حافظ نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث پر عنوان قائم کیا ہے:

بَابُ وُجُوبِ قَضَاءِ الصَّوْمِ عَلَى الْحَائِضِ دُونَ الصَّلَاةِ.

حائضہ کے لیے روزے کی قضا واجب ہے ، نماز کی نہیں۔ (أيضاً)
اور جیسا کہ اوپر گزرا کہ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں:

كُنَّا نَحِيضُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ نَطْهُرُ فَيَأْمُرُنَا بِقَضَاءِ الصِّيَامِ وَلَا يَأْمُرُنَا بِقَضَاءِ الصَّلَاةِ.

’’رسول اللہﷺ کے زمانے میں ہمیں حیض آتا پھر ہم پاک ہوجاتے تو آپ ہمیں روزے کی قضا کا حکم دیتے اور نماز کی قضا کا حکم نہیں دیتے تھے۔‘‘ (سنن الترمذي : ٧٨٧)
امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث پر یہ عنوان دیا ہے :

بَاب مَا جَاءَ فِي قَضَاءِ الْحَائِضِ الصِّيَامَ دُونَ الصَّلاَةِ.

’’اس چیز کا بیان کہ عورت روزے کی قضا دے گی، نماز کی نہیں۔‘‘ (ایضاً)
⇚ابو سلمہ بیان کرتے ہیں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:

كَانَ يَكُونُ عَلَيَّ الصَّوْمُ مِنْ رَمَضَانَ فَمَا أَسْتَطِيعُ أَنْ أَقْضِيَ إِلَّا فِي شَعْبَانَ.

’’میرے ذمے رمضان کے روزے ہوتے تو میں ان کی قضا شعبان میں ہی دے پاتی تھی۔‘‘ (صحیح بخاري : ١٩٥٠، صحیح مسلم : ١١٤٦)
امام نسائی رحمہ اللہ نے اس حدیث پر یوں باب قائم کیا ہے :

وَضْعُ الصِّيَامِ عَنِ الْحَائِضِ.

’’حیض کی حالت میں (وقتی طور پر)روزہ معاف ہونا۔‘‘ (سنن النسائي، قبل الحديث : ٢٣١٩)
یعنی اس حدیث میں بھی عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کر رہی ہیں کہ وہ رمضان میں بوجہ حیض رہ جانے والے جو روزے ان کے ذمہ ہوتے تھے وہ ان کی قضا بعد میں دیا کرتی تھیں۔
اس مسئلے میں علماء کا کوئی اختلاف نہیں، بلکہ سب متفق ہیں۔ ⇚جیسا کہ امام ترمذی رحمہ اللہ (٢٧٩هـ) فرماتے ہیں :

الْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ لَا نَعْلَمُ بَيْنَهُمْ اخْتِلَافًا إِنَّ الْحَائِضَ تَقْضِي الصِّيَامَ وَلَا تَقْضِي الصَّلَاةَ.

’’اہل علم کے ہاں اسی حدیث پر عمل ہے اور ہمارے علم کے مطابق ان میں اس مسئلے پر کوئی اختلاف نہیں کہ حائضہ روزے کی قضا دے گی، نماز کی قضا نہیں دے گی۔‘‘ (سنن الترمذی، بعد ح: ٧٨٧)
⇚امام ابن المنذر رحمہ اللہ (٣١٨هـ) فرماتے ہیں :

وأجمعوا على أن عليها قضاء ما تركت من الصوم في أيام حيضتها.

’’علماء کا اجماع ہے کہ عورت اپنے حیض کے ایام میں جو روزے چھوڑے گی، ان کی قضا اس پر واجب ہے۔‘‘ (الإجماع : ٣٠)
⇚علامہ قرطبی رحمہ اللہ (٦٧١هـ) فرماتے ہیں :

أجمع العلماء أن الحائض تقضي الصوم، ولا تقضي الصلاة.

’’علماء کا اجماع ہے کہ حائضہ روزے کی قضا دے گی، نماز کی نہیں دے گی۔‘‘ (الجامع لأحكام القرآن : ٣/ ٨٣)
اس کے علاوہ علماء کی کثیر تعداد نے اس مسئلے پر اجماع و اتفاق نقل کیا ہے ۔ مثلا دیکھیں؛ المحلى لابن حزم : ١/ ٣٩٤، التمهيد لابن عبد البر : ٢٢/ ١٠٧)، شرح السنة للبغوي : ٢/ ١٣٩، الإفصاح لابن هبيرة:١/ ٥١ ، نيل الأوطار : ١/ ٣٤٨).
اگر اس مسئلے میں کوئی دلیل نہ بھی ہوتی تو پوری امت کا اجماع ہی کافی تھا، جیسا کہ معمر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ امام زہری رحمہ اللہ نے فرمایا : ’’حائضہ روزے کی قضا دے گی ۔‘‘ میں نے پوچھا : آپ یہ کس سے بیان کرتے ہیں؟ یعنی اس کی دلیل کیا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا :

هَذا ما اجْتَمَعَ النّاسُ عَلَيْهِ ولَيْسَ فِي كُلِّ شَيْءٍ نَجِدُ الإسْنادَ.

’’یہ وہ مسئلہ ہے جس پر تمام لوگ متفق ہیں، ہر چیز میں ہمارے پاس سند نہیں ہوتی۔‘‘ (مصنف عبد الرزاق : ١/ ٣٣٢ وسنده صحیح)
⇚⇚۔ ایک اشکال کا ازالہ :
نماز کی قضا نہیں تو روزے کی قضا کیوں؟
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب حیض و نفاس میں رہ جانے والی نمازوں کی قضا نہیں تو پھر روزوں کی قضائی کیونکر ہے، جبکہ نماز تو روزے سے زیادہ اہم رکن ہے؟
اس کا جواب وہی ہے جو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ایک عورت کو دیا تھا، جب اس نے سوال کیا :
حائضہ عورت کا یہ حال کیوں ہے کہ وہ روزوں کی قضا دیتی ہے نماز کی نہیں ؟ انہوں نے فرمایا : کیا تم حروریہ ہو ؟ میں نے عرض کی : میں حروریہ نہیں، (صرف) پوچھنا چاہتی ہوں ۔ انہوں نے فرمایا: ہمیں بھی حیض آتا تھا تو ہمیں روزوں کی قضا دینے کا حکم دیا جاتا تھا، نماز کی قضا کا حکم نہیں دیا جاتا تھا ۔ (صحیح مسلم : ٧٦٣)
حروریہ ایک خارجی فرقہ تھا، جو عقل کی بنیاد پر احادیث کا انکار کرتے تھے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس عورت سے اس لیے پوچھا تھا کہ کیا تم حروریہ ہو؟ یعنی جب اللہ تعالی نے حکم دے دیا ہے کہ نماز کی قضا نہیں دینی اور روزے کی قضا دینی ہے تو ہمارا کام صرف تسلیم کرنا ہے ۔ اپنی عقل سے فیصلہ نہیں کرنا ۔
⇚امام بخاری رحمہ اللہ نے امام ابو الزناد رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا :

إنَّ السُّنَنَ ووُجُوهَ الحَقِّ لَتَأْتِي كَثِيرًا عَلى خِلاَفِ الرَّأْيِ، فَما يَجِدُ المُسْلِمُونَ بُدًّا مِنَ اتِّباعِها، مِن ذَلِكَ أنَّ الحائِضَ تَقْضِي الصِّيامَ ولاَ تَقْضِي الصَّلاَةَ.

’’بہت سی سنتیں اور شریعت کے احکام عقل و رائے کے خلاف آتے ہیں اور مسلمانوں کے پاس ان کی پیروی کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا، انہی میں سے ایک مسئلہ یہ ہے کہ حائضہ روزے کی قضائی دے گی، نماز کی قضائی نہیں دے گی ۔‘‘ (صحیح بخاری، قبل الحديث : ١٩٥١، الفقيه والمتفقّه للخطیب : ٤١٢)
اس قول کا مطلب یہ کہ شرعی احکام کا معیار ہماری ناقص عقل نہیں بلکہ فرمان نبوی ﷺ ہے۔ خواہ وہ بظاہر عقل کے خلاف بھی نظر آئے مگر حق و صداقت وہی ہے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے فرما دیا۔ اسی کو مقدم رکھنا اور عقل ناقص کو چھوڑ دینا ایمان کا تقاضا ہے۔
⇚حافظ ابن رجب رحمہ اللہ (٧٩٥هـ) فرماتے ہیں :

هذا يدل على أن هَذا مما لا يدرك بالرأي، ولا يهتدي الرَأي إلى وجه الفرق فيهِ.

’’یہ قول اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ عقل سے بالاتر بات ہے اور (نماز اور روزے کی قضا میں) اس فرق کی وجہ عقل نہیں سمجھا سکتی۔‘‘ (فتح البارى : ٢/ ١٣٤)
بعض اہل علم نے اس کی توجیہات بھی کی ہیں، مثلا بعض کا کہنا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ روزے کی قضا اتنی مشکل نہیں ہے جتنی نماز کی ہے، کیونکہ روزے پورے سال میں صرف ایک بار آتے ہیں، چند دن ہوتے ہیں، ان کی گنتی آسانی سے یاد بھی رکھی جا سکتی ہے اور پھر عورت کے پاس اگلے رمضان سے پہلے پورا سال وقت ہوتا ہے جبکہ نمازیں ہر ماہ کئی چھوٹ جاتی ہیں، ان سب کی گنتی پورے حساب سے یاد رکھنا، پھر ہر ماہ ان کی قضا دینا بہت مشکل اور مشقت والا کام تھا اس لیے اللہ تعالی نے اپنی رحمت کرتے ہوئے، نماز معاف کر دی اور روزے کی قضا کو برقرار رکھا۔
بہرحال حکمت کوئی بھی ہو، ہم اسی چیز کے پابند ہیں جو اللہ تعالی نے ہمارے ذمے لگائی ہے، جیسے عبادات فرض ہیں ہم اسی طرح انہیں بجا لانے کے پابند ہیں ۔

✿ تیسرا مسئلہ 

جب عورت اس حالت میں روزہ چھوڑے گی تو صحیح قول کے مطابق اس کے لیے سارا دن کھانا پینا بالکل جائز ہے، اسے بھوکا پیاسا رہنے کی ضرورت نہیں، چاہے وہ دن کے کسی وقت پاک بھی ہو جائے تب بھی اس کے لیے اس دن کوئی پابندی نہیں بلکہ اگلے دن روزے شروع کرے گی۔
یہی علمائے مالکیہ (الكافى لابن عبد البر : ١/ ٣٤٠) اور شافعیہ (المجموع شرح المهذب : ٦/ ٢٥٧) کا مذہب ہے، اور حنابلہ کے ہاں ایک روایت ہے ۔ (الشرح الكبير لابن قدامة : ٣/ ٦٢)
⇚شیخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ (١٤٢١هـ) فرماتے ہیں :

إذا طهرت الحائض أو النفساء أثناء النهار لم يجب عليها الإمساك ، ولها أن تأكل وتشرب ، لأن إمساكها لا يفيدها شيئاً ، لوجوب قضاء هذا اليوم عليها.

’’اگر حیض و نفاس والی عورت دن میں کسی وقت پاک ہو جائے تو اس کے لیے کوئی پابندی نہیں وہ کھا پی سکتی ہے کیونکہ اس پر بعد میں اس دن کی قضاء واجب ہے تو اس پابندی کا اسے کوئی فائدہ نہیں۔‘‘ (مجموع فتاوی الشيخ ابن العثيمين : ١٩/ ٩٩، الشرح الممتع : ٤/ ٣٨١)
البتہ اگر عورت سب کے سامنے کھانے پینے کی بجائے کچھ ہٹ کر کھائے تو یہ شرم و حیاء کے اعتبار سے اور روزہ داروں کے احترام میں زیادہ اچھا ہے۔

✿ چوتھا مسئلہ

اگر کوئی عورت پاکیزگی کے دنوں میں باقاعدگی سے فرض نمازوں، نوافل و تراویح اور تلاوت قرآن کا اہتمام کر رہی ہو لیکن ان ایام کی وجہ سے سب رک جائے تو اسے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، راجح قول کے مطابق اس کے لیے اُن ساری عبادات کا ثواب لکھا جاتا ہے جو وہ پہلے کیا کرتی تھی ۔
⇚ جیسا کہ سیدنا ابو موسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :

«إِذَا مَرِضَ العَبْدُ، أَوْ سَافَرَ، كُتِبَ لَهُ مِثْلُ مَا كَانَ يَعْمَلُ مُقِيمًا صَحِيحًا».

’’جب بندہ بیمار ہوتا ہے یا سفر کرتا ہے تو اس کے لیے ان تمام عبادات کا ثواب لکھا جاتا ہے جنہیں اقامت یا صحت کے وقت یہ کیا کرتا تھا ۔‘‘ (صحیح بخاری : ٢٩٩٦)
⇚ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (٨٥٢هـ) فرماتے ہیں :
’’یہ ہر اس بندے کے حق میں ہے جو اطاعت کا کوئی کام کرتا تھا، پھر اس میں کوئی رکاوٹ آ گئی اور اس کی نیت تھی کہ اگر یہ رکاوٹ نہ ہوتی تو وہ ضرور اس عمل پر برقرار رہتا۔‘‘ (فتح الباري : ٦/ ١٣٦)
⇚اسی طرح سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

«مَا أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ يُصَابُ بِبَلَاءٍ فِي جَسَدِهِ إِلَّا أَمَرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الْمَلَائِكَةَ الَّذِينَ يَحْفَظُونَهُ، فَقَالَ : اكْتُبُوا لِعَبْدِي فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ مَا كَانَ يَعْمَلُ مِنْ خَيْرٍ، مَا كَانَ فِي وِثَاقِي».

’’جب کوئی آدمی کسی جسمانی مصیبت میں مبتلا ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ (نیکیاں) لکھنے والے فرشتوں سے کہتے ہیں: میرا بندہ جب تک میری (آزمائش کی) قید میں ہے، تم اس وقت تک اس کے شب و روز کے نیکیوں کے معمولات لکھتے رہو۔‘‘
(مسند احمد، ط ; الرسالة : ١١/ ١٩ وسنده صحیح)
⇚ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :

«مَا مِنْ مُسْلِمٍ ابْتَلَاهُ اللَّهُ فِي جَسَدِهِ إِلَّا كُتِبَ لَهُ مَا كَانَ يَعْمَلُ فِي صِحَّتِهِ، مَا كَانَ مَرِيضًا، فَإِنْ عَافَاهُ عَسَلَهُ، وَإِنْ قَبَضَهُ غَفَرَ لَهُ».

’’جس مسلمان کو اللہ تعالیٰ کسی جسمانی بیماری میں مبتلا کرے تو جب تک وہ بیمار رہتا ہے تو اسے ان اعمال کا ثواب ملتا ہے جو وہ صحت کے زمانہ میں کرتا تھا۔ پھر اگر اسے عافیت دے دے تو موت سے پہلے نیکی کی توفیق دے دیتا ہے اور اگر اس کو وفات دے دے تو اسے بخش دیتا ہے۔‘‘ (الأدب المفرد : ٥٠١ وحسنه الألباني)
⇚ شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا :
بعض فقہائے شافعیہ کا کہنا ہے کہ حائضہ عورت کو اس کے فطری ایام میں نماز کا اجر ملتا ہے کیونکہ سیدنا ابو موسی رضی اللہ عنہ کی حدیث عام ہے کہ جب بندہ بیمار ہوتا ہے یا سفر کرتا ہے… إلخ.
تو انہوں نے جواب دیا :
’’یہ کوئی بعید بات نہیں کیونکہ ظاہری دلائل اسی پر ہیں، جب اللہ تعالی اس کے دل میں جان لیں گے کہ اگر وہ حالتِ حیض میں نہ ہوتی تو اس کے لیے نماز پڑھنے والوں کی طرح اجر ہے جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’جب بندہ بیمار ہوتا ہے یا سفر کرتا ہے تو اس کے لیے ان تمام عبادات کا ثواب لکھا جاتا ہے جنہیں اقامت یا صحت کے وقت یہ کیا کرتا تھا ۔‘‘ اسی طرح آپ ﷺ نے غزوہ تبوک سے رہ جانے والے صحابہ کے بارے میں فرمایا تھا : ’’تم جس بھی وادی میں چلے ہو اور جس بھی گھاٹی کو عبور کیا ہے وہ تمہارے ساتھ تھے ۔‘‘ اور ایک حدیث کے الفاظ ہیں کہ ’’وہ (مدینہ میں بیٹھے) تمہارے ساتھ اجر میں شریک ہیں کیونکہ انہیں عذر و مجبوری نے ساتھ آنے سے روکا ہے ۔‘‘ تو جب اللہ تعالی حیض و نفاس والی عورت کے دل میں جان لیں گے کہ اسے صرف اسی مجبوری نے روک ہے تو اس کے لیے پورے اجر کی امید ہے۔‘‘ (فتاوى الدروس ; هل يَجْرِي للحائض أجر الصلاة فترة عادتها؟)
اسی طرح شیخ رحمہ اللہ سے پوچھا گیا :
کیا رمضان میں شرعی عذر کی وجہ سے روزہ چھوڑنے والا مثلا جیسے بوڑھا شخص وہ فدیہ دے گا تو کیا اسے روزہ دار جیسا اجر ملے گا؟
تو شیخ رحمہ اللہ نے جواب دیا :
’’جی اس کے لیے اس ثواب کی امید ہے کیونکہ وہ شرعی طور پر معذور ہے اور معذور روزہ دار کے حکم میں ہوتا ہے … تو بہت بوڑھا شخص جو روزہ نہیں رکھ سکتا وہ معذور ہونے کی وجہ روزہ داروں کے حکم میں ہے کیونکہ اگر عاجز نہ ہوتا تو روزہ رکھتا۔‘‘ (فتاوی نور علی الدرب : ١٠٤/ ١٦)
شیخ محمد آدم اثیوبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’حائضہ اس مسئلے میں اس مریض کی طرح ہی ہے کہ جسے اس کا مرض ان اعمال کی ادائیگی سے روک دیتا ہے جو وہ حالت صحت میں کیا کرتا تھا، کیوں کہ عورت کی نیت یہ ہوتی ہے کہ اگر حیض نہ ہوتا تو وہ نماز ادا کرتی جو کہ ایک شرعی عذر ہے، اور مسافر کا معاملہ تو شاید اس سے بھی واضح ہے کہ وہ کسی بھی وقت سفر ختم کر کے عبادات شروع کر سکتا ہے اس کے باوجود شریعت نے اس کے عذر کو تسلیم کیا ہے اور اسے حضر میں کیے جانے والے اعمال کا ثواب دیا یے تو حائضہ کے لیے تو ممکن ہی نہیں کہ وہ اپنے ایام کو خود ختم کر سکے تو زیادہ اولی ہے کہ شریعت اسے ان اعمال کا ثواب دے جو شرعی عذر نہ ہوتا تو وہ ضرور کرتی۔‘‘ (البحر المحيط : ٢/ ٥٥٦)
اسی تفصیل کے مطابق اگر عورت عام دنوں میں رمضان کے روزے رکھے اور ان ایام میں رہ جانے والے روزوں کی بعد میں قضائی دے دے تو اس کے لیے اجر کامل کی امید ہے ۔ إن شاء اللہ ۔ اس مسئلے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عورت پر اللہ تعالی کی کس قدر رحمت و فضل ہے کہ مشکل ایام میں رخصت دے کر بنا کسی جسمانی عمل کے محض نیت کی بنیاد پر اسے اجر کا بھی مستحق بنا دیا ۔ وكان فضل الله عليهن عظيما.

✿ پانچواں مسئلہ

عورت ان ایام میں کیسے رمضان کی برکات سے فائدہ اٹھا سکتی ہے؟
یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ فطری ایام میں عورت پر اگرچہ نماز اور روزے کی پابندی ہوتی ہے لیکن اس کے علاوہ کئی ایک نیکی کے راستے اس کے لیے کھلے رہتے ہیں، اس لیے رمضان اور اس کے علاوہ سارا سال مختلف عبادات سے فائدہ اٹھا سکتی ہے، چونکہ یہ ایام مزاج و طبعیت کے لیے گراں ہوتے ہیں تو عورت اپنی طبیعت کے لحاظ سے درج ذیل جو عبادات آسانی سے کرنا چاہے کر سکتی ہے۔
⇚۔ ذکر واذکار اور استغفار :
قرآن مجید کی مصحف سے تلاوت میں اگرچہ قوی اختلاف ہے، لیکن علماء کا اتفاق ہے کہ عام ذکر و اذکار میں اس پر کوئی پابندی نہیں، وہ زیادہ سے زیادہ ذکر و اذکار، تسبیح و تحمید اور تہلیل و استغفار کرے۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو جب حج کے دوران حالتِ احرام میں یہ ایام شروع ہو گئے تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا :

«فَإِنَّ ذَلِكِ شَيْءٌ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَى بَنَاتِ آدَمَ، فَافْعَلِي مَا يَفْعَلُ الحَاجُّ، غَيْرَ أَنْ لاَ تَطُوفِي بِالْبَيْتِ حَتَّى تَطْهُرِي».

’’یہ چیز تو اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کی بیٹیوں کے لیے مقرر کر دی ہے، اس لیے آپ جب تک پاک نہیں ہو جاتیں تب تک بیت اللہ کے طواف کے علاوہ حج کے وہ تمام اعمال کرو جو حاجی کرتے ہیں۔‘‘ (صحیح بخارى : ٣٠٥)
اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ دورانِ حج بکثرت ذکر کیا جاتا ہے اور اللہ تعالی نے اس کا حکم دیا ہے، فرمایا :

﴿فَإِذَا أَفَضْتُمْ مِنْ عَرَفَاتٍ فَاذْكُرُوا اللَّهَ﴾.

’’جب عرفات سے کوچ کرو تو اللہ کا ذکر کرو۔‘‘ (البقرہ : ١٩٨)
اور فرمایا :

﴿وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُودَاتٍ﴾.

’’اور ان گنتی کے چند دنوں میں اللہ تعالی کا ذکر کرو۔‘‘ (البقرہ : ٢٠٣)
معلوم ہوا کہ اگر حائضہ کے لیے ذکر و اذکار اور استغفار ممنوع ہوتے تو آپ ﷺ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو حاجیوں کی طرح تمام افعال کرنے کی اجازت نہ دیتے جبکہ اس میں ذکر و اذکار اور تلبیہ وغیرہ شامل ہوتے ہیں ۔
اس پر مزید دلیل عید کے دن لوگوں کے ساتھ تکبیرات کہنے کی حدیث بھی ہے جس کا ذکر آگے آئے گا ۔ إن شاء اللہ۔
یہاں بطورِ ترغیب عرض ہے کہ بعض تابعین پسند کرتے تھے کہ ان ایام میں عورت نماز کے وقت اہتمام سے بیٹھ کر ذکر و اذکار کرے ۔ (مصنف ابن أبي شيبة : ٢/ ١٢٧، فتح الباری لابن رجب : ٢/ ١٣٠) لیکن یاد رہے کہ ہر نماز کے وقت اسے ہمیشگی کے ساتھ اپنانا درست نہیں کیونکہ اس کے متعلق کوئی شرعی دلیل نہیں ہے، البتہ عام وقت میں سارا دن ذکر و اذکار کرتی رہے جیسا کہ اوپر بیان ہوا۔
⇚ اللہ تعالی سے دعائیں و التجائیں:
عورت ان ایام میں اللہ تعالی سے خوب دعائیں کر سکتی ہے، اس میں بھی کوئی حرج نہیں ۔
اس کی ایک دلیل تو وہی ہے جو اوپر بیان ہو چکی کہ آپ ﷺ نے دورانِ حج طواف کے علاوہ تمام افعال کی اجازت دی جبکہ حج میں تو قدم بقدم دعائیں کی جاتی ہیں اور حاجی دل کھول کر اللہ تعالی سے التجائیں کرتے اور اپنی حاجات کا سوال کرتے ہیں ۔
اسی طرح دوسری دلیل آپ ﷺ کی وہ حدیث ہے جس میں آپ نے فطری ایام والی عورتوں کو دعا میں شامل ہونے کے لیے عید گاہ جانے کا پابند کیا، جیسا کہ سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

«لِتَخْرُجِ الْعَوَاتِقُ ذَوَاتُ الْخُدُورِ وَالْحُيَّضُ فَيَشْهَدْنَ الْخَيْرَ وَدَعْوَةَ الْمُسْلِمِينَ».

’’(عید گاہ کی طرف) پردہ دار کنواری اور حائضہ عورتیں بھی نکلیں اور وہ خیر اور مسلمانوں کی دعا میں شامل ہوں۔‘‘ (صحیح بخاری : ١٦٥٢، صحیح مسلم : ٨٩٠)
نیز بیان کرتی ہیں :

كُنَّا نُؤْمَرُ أَنْ نَخْرُجَ يَوْمَ الْعِيدِ حَتَّى نُخْرِجَ الْبِكْرَ مِنْ خِدْرِهَا حَتَّى نُخْرِجَ الْحُيَّضَ فَيَكُنَّ خَلْفَ النَّاسِ فَيُكَبِّرْنَ بِتَكْبِيرِهِمْ وَيَدْعُونَ بِدُعَائِهِمْ.

’’ہمیں عید کے دن (عید گاہ کی طرف) نکلنے کا حکم دیا جاتا حتی کہ ہم کنواری لڑکیاں اور حیض والی عورتوں کو بھی نکالتے، یہ لوگوں کے پیچھے رہتیں، ان کی تکبیرات کے ساتھ تکبیرات کہتیں اور ان کی دعا کے ساتھ دعا مانگتی تھیں۔‘‘ (صحیح بخاری : ٩٧١، صحیح مسلم : ٨٩٠)
*⇚علمی دروس سننا اور دینی کتب کا مطالعہ کرنا :
ہم جانتے ہیں کہ علم دین سیکھنے حصولِ ثواب اور تقرب الہی کا ایک اہم ذریعہ ہے، اگر عورت ان ایام میں اپنے دینی مسائل سیکھنے کو وقت دے سکتی ہے چونکہ اس کی ممانعت پر کوئی دلیل نہیں لہذا اس میں کوئی حرج نہیں ۔
جیسا کہ شیخ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

لا بأس عليها أن تقرأ الصحف الدينية، والكتب الإسلامية، كمثل كتب الحديث، كتب الفقه، كتب التفسير.

’’حائضہ کے لیے دینی اخبار، اسلامی کتب جیسے کتب حدیث، کتب فقہ اور کتب تفسیر پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔‘‘ (فتاوی نور علی الدرب ،حكم قراءة الحائض الكتب الدينية)
*⇚ تلاوت قرآن سننا :
جس طرح قرآن مجید کی تلاوت عبادت ہے اسی طرح تلاوت سننا بھی عبادت، باعثِ ثواب اور ایمان میں زیادتی کا سبب ہے تو ان ایام میں عورت جس قدر ہو سکے تلاوت سن لے، موجودہ دور میں موبائل پر با آسانی سننے کی سہولت میسر ہوتی ہے ۔
اس میں کوئی حرج نہیں جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :

«كَانَ يَتَّكِئُ فِي حَجْرِي وَأَنَا حَائِضٌ، ثُمَّ يَقْرَأُ القُرْآنَ».

’’نبی کریم ﷺ میری گود میں سر رکھ کر قرآن مجید پڑھتے، حالانکہ میں اس وقت حیض والی ہوتی تھی۔‘‘ (صحیح بخاری : ٢٩٧، صحیح مسلم : ٣٠١)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اس حالت میں قرآن مجید سننے میں کوئی حرج نہیں اسی لیے آپ ﷺ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی گود میں سر مبارک رکھ کر تلاوت کر لیا کرتے تھے۔
⇚شیخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

يجوز للمرأة أن تستمع إلى قراءة القرآن وهي حائض.

’’عورت کے لیے حالتِ حیض میں تلاوتِ قرآن سننا جائز ہے۔‘‘ (فتاوى نور على الدرب للعثيمين، حكم سماع المرأة للقرآن وهي حائض)
⇚شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے اس متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا :

نعم، لها أن تستمع وهي حائض أو نفساء.

’’جی، عورت کے لیے حیض یا نفاس کی حالت میں تلاوت قرآن سننا جائز ہے۔‘‘ (فتاوى نور على الدرب لابن باز، استماع الحائض القرآن)
اسی طرح ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں :
’’حیض و نفاس والی عورتوں کے لیے اللہ کا ذکر، اس کی تسبیح و تحمید اور تہلیل و تکبیر اور علمی درس میں شریک ہونا، قران مجید کی تلاوت کرنے والے سے تلاوت سننا اور ہر خیر کے معاملے میں شریک ہونا مشروع و جائز ہے، لیکن وہ صرف نماز و روزے کی ادائیگی اس وقت تک نہیں کرے گی جب تک پاک نہ ہو جائے، اسی طرح مصحف سے قرآن مجید نہ پڑھے البتہ صحیح ترین قول کے مطابق جو قرآن یاد ہو اسے زبانی پڑھ سکتی ہے، بالخصوص اگر اس کی ضرورت ہو۔‘‘ (نور على الدرب، ما يحل للحائض وما يحرم)

(حافظ محمد طاھر)

یہ بھی پڑھیں: علمِ وقف و ابتداء