سوال (2127)
صحیح مسلم “حدیث نمبر: 6220” کی وضاحت کر دیں کہ جس میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ حضرت سعد کو کہہ رہے ہیں کہ تم علی رضی اللہ تعالی عنہ کو برا بھلا کیوں نہیں کہتے ہیں، مرزا جہلمی کا ایک پیروکار کے ساتھ بحث ہو رہی ہے، باقی میں نے اس کو سارے دلائل دیے ہیں، جو معاملہ علی رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ ہوا لیکن یہاں تھوڑی وضاحت کی ضرورت ہے۔
جواب
اس سوال کے متعلق مجھے یاد پڑتا ہے کہ اس پر غالبا شیخ عثمان الخميس حفظہ اللہ کا کلپ ہے، جس میں اس کا جواب دیا گیا ہے، فیس بک یا یوٹیوب پر سنا تھا، جہاں تک مجھے یاد ہے، اسی حدیث کے متعلق شیخ عثمان الخميس حفظہ اللہ نے بتایا تھا کہ اس حدیث میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے ان کی پسندیدہ کنیت ابوتراب کا استعمال کیا اور عرب کے ہاں کسی کو عزت و احترام سے بلانے کے لیے نام کے بجائے کنیت استعمال کی جاتی ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ اس حدیث سے تو سیدنا معاویہ اور علی رضی اللہ عنہما کی محبت ثابت ہوتی ہے ، رہی بات سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سوال کی تو اس میں بھی سیدنا علی کی فضیلت دوسروں کے سامنے واضح کرنے کے لیے سوال کیا گیا ہے تاکہ جب سعد رضی اللہ عنہ وجہ بتائیں تو ظاہر ہے وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے فضائل ہی بیان کریں گے۔لہذا اس حدیث میں کسی قسم کا کوئی مسئلہ سوائے بیمار ذہن لوگوں کے یا رافضیت سے متاثرین کے نہیں ہے۔
فضیلۃ الباحث مدثر فرقان حفظہ اللہ
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے صحیح مسلم: 6220] میں جو “سب” کا کہا تھا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو وہاں سب سے مراد برا بھلا کہنا گالی دینا نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد ہے کہ اختلاف رائے رکھنا، قصاص عثمان رضی اللہ عنہ کے حوالے سے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ چونکہ اپنے آپ کو بنسبت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے اجتہادی طور پر زیادہ حق پر سمجھتے تھے، اس لیے وہ کہتے تھے قصاص عثمان رضی اللہ عنہ کے معاملہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی رائے سے اختلاف کا اظہار کرو، یہاں سب سے مراد گالی نہیں ہے، جیسا کہ امام نووی رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے۔
[شرح نووی،جلد: 7 صفحہ: 27]
جس طرح [صحیح مسلم: 5974] میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو لوگوں سب کیا ہے، اب اگر یہاں سب سے مراد گالی لیں گے تو کیا نعوذ باللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گالی دیا کرتے تھے؟
اسی طرح [صحیح البخاری: 4033] میں ہے کہ سیدنا علی اور سیدنا عباس رضی اللہ عنھما نے ایک دوسرے کو سب کیا ہے۔ اب کیا یہاں بھی یہ کہیں گے سیدنا علی رضی اللہ اپنے چچا کو گالیاں دیتے تھے؟
جس طرح ان روایات میں سب کا معنی گالی نہیں اسی طرح سے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ والی روایت میں بھی سب سے مراد گالی نہیں اختلاف رائے رکھنا ہے۔
اس مسئلے کی مزید وضاحت دیکھیں:
(1): مرزا جہلمی کی ریسرچ پیپر 5_B کا جواب بقلم مفتی عتیق الرحمن علوی حفظہ اللہ، [صفحہ: 69]
(2): خال المومنین معاویہ رضی اللہ عنہ، بقلم مولانا عبدالرزاق رحمانی حفظہ اللہ، [صفحہ: 143]
اس کتاب میں انجینئر محمد علی مرزا جہلمی، رافضی، کے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ پر کیے گئے باطل اعتراضات کے مکمل جوابات لکھے گئے ہیں۔ تقبل اللہ منہ
ھذا ما عندی واللہ اعلم باالصواب
فضیلۃ الباحث احمد بن احتشام حفظہ اللہ
جو صحیح مسلم میں روایت ہے کہ اس میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت بیان کی جا رہی ہے، امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سوالیہ انداز میں سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے پوچھ رہے ہیں “ما منعك ان تسب ابو تراب” تجھے کونسی چیز روکتی ہے ابو تراب کو برا بھلا کہنے سے یہاں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا ابو تراب کہنا علی رضی اللہ عنہ سے محبت کی دلیل ہے، کیونکہ اس وقت ناموں کی جگہ کنیت سے پکارا جاتا تھا اگر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ علی رضی اللہ عنہ کو گالی دینا مقصود ہوتا تو اس نام سے کبھی نا پکارتے کسی اور لقب سے پکارتے، پھر سعد رضی اللہ عنہ نے وجہ اور سبب بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ تین باتیں بیان کی ہیں، جو حدیث میں بیان ہوئی ہیں، سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا آ گے سے خاموش ہونا بھی اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کی تنقیص مقصد نہیں بلکہ محبت کی دلیل ہے، مرزا جہلمی صاحب نے اپنے مطلب کے لیے حدیث کو غلط رنگ میں پیش کیا یہاں سے صاف بات پتہ چلتی ہے کہ مرزا جہلمی دشمن صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین ہے، اس کے لیے آپ مزید استاد محترم فضيلة الشيخ حافظ عتیق الرحمن علوی صاحب حفظہ اللہ تعالٰی کے مرزا کے جواب میں ریسرچ پیپر 5 _ B کا مطالعہ کریں، وہاں پر استاد محترم نے دلائل کے ساتھ مرزا کی ہر بات کا رد کیا ہے۔
فضیلۃ الباحث امتیاز احمد حفظہ اللہ
عمدہ توضیح و توجیہ اور الزامی جواب ہے، دین اسلام صحابہ کرام و سلف صالحین سے ہوتا ہوا ہم تک پہنچا ہے، تو سوال ہے کہ اس طرح کے سوال اور ایسے الفاظ پر اعتراض خیر القرون و بعد کے زمانہ تدوین حدیث میں کسی مسلم نے ائمہ محدثین وعلل سے کیوں نہیں کیا ، پھر سوال ہے کہ سیدنا علی المرتضیٰ رضی الله عنہ اور سیدنا عباس رضی الله عنہ نے جو کہا اس پر کیا جواب ہے۔
فاستب علي و عباس
[صحیح البخاری: 4033]
[صحیح مسلم: 1757] میں ہے:
ﻓﻘﺎﻝ ﻋﺒﺎﺱ: ﻳﺎ ﺃﻣﻴﺮ اﻟﻤﺆﻣﻨﻴﻦ، اﻗﺾ ﺑﻴﻨﻲ ﻭﺑﻴﻦ ﻫﺬا اﻟﻜﺎﺫﺏ اﻵﺛﻢ اﻟﻐﺎﺩﺭ اﻟﺨﺎﺋﻦ
معترض کا سیدنا عباس رضی الله عنہ کے ان الفاظ پر کیا جواب ہے، جو جواب دیں وہی ہمارا جواب ہوگا، اور یہ الفاظ صرف “سب” تک نہیں بلکہ اس سے کہیں سخت اور بھاری ہیں اور سیدنا علی المرتضیٰ رضی الله عنہ وغیرہ کی طرف سے کوئی رد عمل اور فتوی بازی بھی نہیں ہے۔
پھر سوال ہے کہ سیدنا علی المرتضیٰ رضی الله عنہ کا اپنا رد عمل کہیں بیان ہوا ہے، ان معاویہ رضی الله عنہ کے الفاظ پر۔ سلف صالحین نے اگر اس طرح کے الفاظ پر خاموشی اختیار کی اور انہیں عام نہیں کیا تو ہمیں کیا تکلیف ہے انہیں عام کرنے کی، یا پھر اس کی مناسب توجیہ و تعبیر کر لیں۔ یا سب سے بہتر ہے کہ سکوت کریں اور صحابہ کرام واہل بیت کے فضائل ومناقب شان و عظمت کو ہی بیان کریں اور ان کے لیے مغفرت ورحمت کی دعا کریں کیونکہ رب العالمین ان سے راضی ہو چکے ہیں، انہیں وہ رضوان مل چکی جو تمام اہل جنت کو جنت میں جا کر ملے گی۔
آج لوگوں کی گمراہی کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ منہج محدثین ،منہج سلف صالحین سے ہٹ چکے ہیں ہر کوئی اپنی مرضی کی تفسیر و تعبیر معانی و تشریح کرتا پھر رہا ہے، جب حالت اس جیسی ہی رہے گی تو دلوں میں صرف نفاق باقی رہ جائے گا، یہ بات سمجھ لیں کہ صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین سے رب العالمین نے کفر، گناہ اور نافرمانی کو ناپسندیدہ بنا دیا تھا، ان مہاجرین و انصار اور فتح مکہ کے بعد اسلام لانے والے صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین سے کوئی غلطی عمدا اور سنجیدگی میں نہیں ہوئی ہے، بلکہ جو تھا، وہ محض اجتہادی اختلاف کے سبب ہوا جو کسی صورت گناہ قرار نہیں پاتا ہے۔ عظمت صحابہ و اہل بیت کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین زندہ باد، دشمنان صحابہ و دشمنان اہل بیت مردہ باد
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ