اہل مدارس سے ایک مشورہ اور عاجزانہ گزارش
(ہر مدرسہ اپنے فارغ التحصیل علمائے کرام کے معاش اور ہنرمندی کی کوشش کرے تو خاطر خواہ نتائج نکل سکتے ہیں)
مدرسہ کی مثال ماں جیسی ہوتی ہے اور ماں کی سنت اور فطرت یہ ہوتی ہے کہ وہ تاحیات اپنی اولاد کے لئے فکر مند رہتی ہے۔ اسی لئے مدرسہ کو مادرعلمی کہا جاتا ہے کہ جس طرح ماں کی آغوش اولاد کے لئے سائبان اور رحمت ہوتی ہےاور عمر بھراپنی اولاد کو اپنی آغوش میں رکھتی ہےاسی طرح مدارس کو بھی اپنے فارغ التحصیل علمائے کرام کی خبر گیری اور معاونت کے لئے کوشاں رہنا ضروری ہے۔مادرعلمی کا حقیقی مطلب تو یہ ہے کہ مدرسہ جس طرح دورانِ تعلیم طلباء کے لئے فکرمند ہوتا ہے ان کے رہائش، کھانے پینے علاج معالجہ کے لئے ہمہ وقت فکرمند اور کوشاں ہوتا ہے فراغت کے بعد بھی اپنے فضلاء کو تنہاء نہ چھوڑا جائے بلکہ ایسا نظام بنانا چاہئے کہ فضلاء تاحیات اپنے منبع سے جڑے رہیں۔
اگر جائزہ لیا جائے کہ ہر مدرسہ سے ہر سال کتنے علمائے کرام فارغ ہوتے ہیں اور فراغت کے بعد ان کے کیا حالات ہوتے ہیں۔۔۔ فراغت کے بعد کون سا مدرسہ اپنے فضلاء کے لئے فکرمند رہتا ہے اور اپنے ہر طالب علم کے حالات سے آگاہ رہتا ہے؟۔مدرسہ کےفضلائے کرام کے لئے مدرسہ کی طرف سے مستقل بنیادوں پرکیا حکمت عملی ہوتی ہے تو یقینا اس سوال کا جواب بہت مشکل ہوگا۔
عموماً ایسا ہوتا ہے کہ فراغت کے بعد 70،80 فیصد علمائے کرام معاش اور روزگار کی وجہ سے مادرعلمی سے دور بہت دور ہوجاتے ہیں۔۔۔فکر معاش او روزگار کی وجہ سےاپنے اساتذہ اور مادر علمی کے ساتھ تعلق اور رشتہ مفقود ہوجاتا ہے۔۔۔کچھ سالوں کے بعد تو اساتذہ اور ادارے کو طلباء کے نام اور مقام تک بھول چکے ہوتے ہیں۔۔۔ ملاقات پر چہرہ تو یاد رہتا ہے لیکن نام تک بھول جاتا ہے۔
ہر طالب علم قابل اور باصلاحیت ہوتا ہے اور ہر طالب علم کی قابلیت دوسروں سے مختلف ہوتی ہے۔۔۔8،10 سال مدرسہ میں رہ کر ادارہ کو بخوبی علم ہوجاتا ہے کہ کون سا طالب علم کتنا قابل اور باصلاحیت ہے۔۔۔ہر استاد کو اپنے شاگردوں کے بارے میں بخوبی علم ہوتا ہے کہ کون سا طالب علم کتنا قابل ہے اور اس میں کون کون سی خوبیاں ہیں۔۔۔
اگر فراغت کے بعد بھی ان کے لئے ایسا نظام ترتیب دیا جائے کہ ہر طالب کی قابلیت کو بروئے کار لاکر اسے ادارہ کے لئے کارآمد بھی بنایا جائے اور طالب علم کے معاش میں معاونت کی جائے۔۔۔اگر ہر مدرسہ اور ادارہ ایسی ترتیب بنائے کہ ان کے فضلاء فراغت کے بعد بھی اپنے مادرِعلمی سے منسلک رہیں تاحیات جُڑے رہیں تو یقینا یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔
موجودہ اور درپیش حالات کو دیکھتے ہوئے کہ ضروری ہوگیا کہ ہر مدرسہ ایسی حکمتِ عملی بنائے کہ فارغ التحصیل علمائے کرام کےلئے مستقل کوئی لائحہ عمل بنایا جائے۔۔۔ مدارس اور اداروں کو چاہئے کہ وہ حالات کے پیشِ نظر علم و فنون کے ساتھ ساتھ ہنر اور سکل کو بھی شاملِ نصاب کریں۔۔۔
میرا ایک ادنیٰ مشورہ
ہر ادارہ اور مدرسہ کو چاہئے کہ فضلاء کے لئے کم سے کم آخری دو سالوں میں ہنر اور سکل کو نصاب میں لازم ملزوم قرار دیں۔۔۔اگر دورانِ تعلیم ایسا ممکن نہیں تو فراغت کے بعد ایک سالہ سکل اور ہنرکا رکھیں۔۔۔مدرسہ اور ادارہ میں ایک الگ سے بجٹ اورجگہ بنا کر وہاں فضلاء کو ہنر اور سکل سکھائی جائے۔
ایسے بیسیوں آئیڈیاز ہیں جن پر عمل پیرا ہوکر مدرسہ اور ادارہ اپنے فضلاء کے معاش میں معاون ثابت ہوسکتا ہےاور اسی کے ساتھ مدرسہ کوبھی مالی، دینی اور بہت سے فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔۔۔ ایسے بہت سے طریقے ہیں جن میں فضلاء ایڈجیسٹ ہوسکتے ہیں اور ادارہ کو بھی خاطرخواہ فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔۔۔ ان شاء اللہ العزیز اس پر مفصل تحریر الگ سے لکھنے کا ارادہ ہے۔
حامد حسن