لے او یار حوالے رب دے۔ حافظ بلال غفور شیخوپوری رحمہ اللہ بھی رخصت ہوئے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون

#نیر_قلب_محمد_ابرار_ظہیر

شہر شیخوپورہ کے ممتاز عالم دین، حافظ بلال عبدالغفور شیخوپوری رحمہ اللہ نوجوانی میں اپنے علم و حلم ، متانت و سنجیدگی، وقار و شائستگی، اطمینان و تمکنت، حسن اخلاق وکردار، عزم وہمت اور محبت ، محبت اور محبت کو پھیلاتے دنیا سے رخصت ہو گئے۔ یوں تو جو دنیا میں آیا ہے اسے جانا ہی ہے، مگر اس طرح اچانک چلے جانا کبھی بھولتا ہی نہیں۔ ایک دن پہلے ہی تو سب کچھ بھلا چنگا تھا، جامعہ محمدیہ کاہنیانوالہ میں حسب معمول اسباق پڑھائے، حدیث کی معتبر ترین کتاب صحیح مسلم کا درس بچوں کو دیا۔ گھر آئے طبیعت خراب ہوئی، ہسپتال لے جایا گیا اور چند گھنٹوں میں تلاوت قرآن کرتے ہوئے داعی اجل کی پکار پر لبیک کہہ گئے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون
اپنے دور میں اہلحدیث یوتھ فورس شیخوپورہ کے روح رواں، علامہ شہید رحمہ اللّٰہ کے دست راست اور دبنگ عالم دین حضرت مولانا حافظ عبدالغفور شیخوپوری رحمہ اللہ کے یہ صاحبزادے اپنے والد کی علمی و عملی میراث کے حقیقی وارث ثابت ہوئے،کچھ دیر بعد والدہ بھی رخصت ہوئیں تو احساس ذمہ داری مزید بڑھ گیا۔ ماں باپ کی جدائی کے بعد چھوٹی عمر میں بڑے ہوگئے اور پھر باقی بہن بھائیوں کو بڑا ہی نہیں باپ اور ماں بن کے دکھایا۔ خاندان کا شیرازہ سنبھال کر رکھا۔ خود کو اپنے والد کا جانشین سمجھا۔

حضرت حافظ محمد بلال عبدالغفور رحمہ اللہ اپنے گرامی قدر دادا حضرت مولانا مقبول احمد اور عالمی شہرت یافتہ کتب کے مصنف اپنے لاڈلے چچا شیخ القرآن مولانا حافظ عبدالشکور شیخوپوری، ممتاز ماہر تعلیم ڈاکٹر فضل الرحمان حفظھمااللہ کی عزت و مقام کے بھی محافظ تھے، ایک بات ذہن میں سمائی تھی کہ میری وجہ سے میرے آباء واجداد کے کارہائے نمایاں پر حرف نہ آنے پائے، اس مشکل گھاٹی کو انہوں نے رب کی رحمت اور فضل سے کمال دانائی و حکمت سے عبور کیا۔

ہمارا ان سے واسطہ حضرت حافظ عبدالشکور شیخوپوری صاحب کے توسط سے پہلے سے ہی تھا، لیکن مسجد فاطمہ وشریفہ کی تعمیر نو سے زیادہ ہوا۔ ہم نے انہیں اخلاق واوصاف میں انتہائی بلند مرتبہ پایا۔ مہمان نوازی میں اپنی مثال آپ تھے۔ ہمیشہ چہرے پر مسکراہٹ سجائے، کھلے دل اور بازؤوں سے استقبال کرنا اور باوجود ایک جید صاحب علم ہونے کے عجز و انکسار کا پیکر رہنا ان کی عادت مستمرہ تھی۔
کل ہی ان کی بیماری کا پتہ چلا، خیال آیا کہ عیادت کےلئے جانا چاہئے مگر ہمارے خیال کو عمل میں تبدیل ہونے سے پہلے ہی وہ وہاں چلے گئے جہاں جانا ہر ایک کا مقدر ہے۔ پھر ان کی عیادت تو نہ ہو سکی مگر ان کے سفر الوداعی پر انہیں دعائیں دینے میں جا شامل ہوئے۔

نماز جنازہ کے موقع پر دیکھا کہ ان کے چھوٹے بھائی بالکل اسی طرح بلک رہے تھے جیسے اپنے والد یا والدہ کی رخصتی کے دن بلکتے نظر آئے تھے ۔ حوصلہ میں بھی تھے لیکن جونہی کوئی گلے لگاتا تو ہلکی سی آہ تو ہر کوئی سن لیتا تھا۔ یہ آہ ہی دراصل ان کے اندر کی آواز تھی۔ ان کے چچا لوگ بھی آنکھوں میں آنسوؤں کا سمندر چھپائے لوگوں سے تعزیت تو وصول کر ہی رہے تھے، مگر اندر سے اس نوجوان بھتیجے کو قبر میں اتارنے کا احساس انہیں بہرحال توڑے ہوئے تھا۔ جب حضرت شیخ القرآن مولانا حافظ عبدالشکور شیخوپوری نماز جنازہ کےلئے آنے والے احباب کا شکریہ ادا کرنے کو مائیک پہ آئے تو ان کی سسکیوں میں کی گئی باتوں نے سبھی شرکاء کے دل ہلا دئیے، ہم نے اس گفتگو کے دوران حافظ بلال رحمہ اللہ کے دیگر بھائیوں، چچا ڈاکٹر فضل الرحمان اور دیگر اعزاء و اقارب کو گردن جھکائے سسکیاں روکتے ہوئے دیکھا۔

جو سامنے تھے ان کی حالت دیکھتے ہوئے خیال آنے لگا کہ ہماری بیوہ ہونے والی بہن / بیٹی کا دل کیسے سنبھل رہا ہوگا، جس نے شوہر کے بغیر ایک رات بھی کاٹنے کا کبھی تصور نہ کیا ہوگا، چہ جائیکہ اب اسے پہاڑ جیسی زندگی شوہر (اور شوہر بھی ایسا کہ جس پر زمانہ ناز کرے) کے بغیر ہی گزارنی ہوگی۔ میں تصور میں بار بار ان 4 ننھے معصوم بچوں کے بارے سوچتا رہا (جن میں سب سے بڑا صرف 10 سال کا ہے) اور دعا کرتا رہا کہ “یا اللہ! ان معصوموں کا اب تو ہی کفیل ہے، ان کی حفاظت فرمانا اور انہیں باپ، دادا اور پردادا کے نقش قدم پر ثابت قدم رکھنا”۔

حضرت حافظ بلال عبدالغفور رحمہ اللّٰہ کی نماز جنازہ میں بلا مبالغہ سینکڑوں لوگ تھے، گرمی کی شدت، حبس کی حدت اور بجلی کی بندش کے باوجود دوست اپنے دوست کو، علماء اپنے عالم دین بھائی کو، شاگردان رشید اپنے جلیل القدر استاد کو اور اساتذہ کرم اپنے عزیز القدر شاگرد کو الوداع کہنے آئے تھے۔ ہم نے مسجد فاطمہ و شریفہ کے نمازیوں کو اپنے خطیب اور استاد کی جدائی میں آنسو بہاتے دیکھا، ہم نے جامعہ سلفیہ کے ہم جماعت دوستوں کو ان کی جدائی پر دکھی و غمناک دیکھا، ہم نے جامعہ محمدیہ کاہنیانوالہ شیخوپورہ کے اساتذہ و طلباء کو حافظ بلال کی جدائی میں روتے ہوئے دیکھا۔

ایک نظر شرکائے جنازہ پر ڈالی تو قسم بخدا حضرت حافظ بلال کی قسمت پر رشک آیا کہ جماعت کے عظیم علماء، اولیاء اللہ کا ایک جم غفیر یہاں موجود تھا، سرمایہ امت فضیلۃ الشیخ حضرت حافظ مسعود عالم ، فضیلۃ الشیخ چوہدری یاسین ظفر، فضیلۃ الشیخ حافظ محمد شریف، فضیلۃ الشیخ علامہ پروفیسر محمد سعید کلیروی ، خطیب پنجاب مولانا محمد صادق عتیق ، فضیلۃ الشیخ صاحبزادہ حافظ محمد عمران عریف، قاری القرآن مولانا قاری عبدالرحمان شیخوپوری، ممتاز اسکالر فضیلۃ الشیخ پروفیسر عثمان خالد شیخوپوری، فخر یوتھ فورس حافظ محمد قسیم، فضیلۃ الشیخ مولانا قاری غلام مصطفیٰ حفظھم اللہ سمیت سینکڑوں اعیان و اکابرین جماعت، سیاسی وسماجی شخصیات اپنے بھائی/ بیٹے کےلئے دعائیں کرنے کو حاضر تھیں۔ گوجرانوالہ سے مرکزی جمعیت اہلحدیث حلقہ الشیخ ابوالبرکات احمد رحمہ اللہ کا بڑا وفد اور شہری جمعیت کی نمائندگی کےلئے تمام سینئر ذمہ دار بھی شریک جنازہ ہوئے۔

نماز جنازہ سے قبل فضیلۃ الشیخ چوہدری یاسین ظفر حفظہ اللہ نے اپنے لاڈلے شاگرد کے کمال اوصاف بیان فرمائے، دوران تعلیم جذبہ حصول علم پر خراج تحسین پیش کیا۔
فضیلۃ الشیخ حضرت حافظ مسعود عالم حفظہ اللہ نے نماز جنازہ کی امامت کروائی، اپنے روحانی بیٹے اور لاڈلے شاگرد کےلئے رب کے سامنے دل کھول کر رکھ دیا۔ انعام مغفرت اور رفع درجات کےلئے رو رو کر اور رلا رلا کر رب سے التجائیں کیں۔ حضرت کی سسکیوں کے درمیان نکلنے والے الفاظ شرکائے جنازہ کے دلوں میں پیوست ہو رہے تھے ، جس کا کوئی نسبی یا سلبی رشتہ بھی نہیں تھا وہ بھی اپنوں کی طرح آنسوؤں کی جھڑیاں لگائے ہوئے تھا ، سبھی شرکاء جنازہ کی رب العالمین کی بارگاہ میں ایک ہی التجا تھی کہ اللہ ہمارے اس بھائی کو معاف کردے اور جوانی کی اس موت کو اس کےلئے بخشش کا سبب بنا دے۔ جملہ اہل خانہ کو صبر عطا کر دے۔