مفتی طارق مسعود صاحب نے اچھی بات کی ہے کہ اہل حدیث دیگر لوگوں سے بہتر ہیں…لیکن انہیں مزید خود کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔
اللہ تعالی مفتی صاحب کو جزائے خیر عطا فرمائے اور توفیق بھی دے کہ جو چیزیں اہل حدیث میں درست ہیں، ان پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کریں۔
اختلاف صرف اہل حدیث کا ہی آپس میں نہیں ہے، ہر مسالک میں ایسے صاحبان علم ہوتے ہیں جو دلائل کی رو سے اپنے مکتب فکر میں رائج اقوال سے اختلاف کرتے ہیں، اس کی تازہ ترین مثال انڈیا کے حنفی حضرات کی ہے، جنہوں نے حنفی ہونے کے باوجود تین طلاق کے ایک ہونے کا فتوی دیا ہے۔
اس سے پہلے جتنے بھی بڑے بڑے علمائے کرام گزرے ہیں، چاہے وہ کسی بھی مکتب فکر اور مسلک سے تعلق رکھتے ہوں، انہوں نے دلائل کی بنیاد پر رائج الوقت موقف سے اختلاف کیا ہے۔
مفتی صاحب نے فرمایا کہ آپ باقاعدہ اپنی فقہ کا اعلان کریں ورنہ امت تباہی کے راستے پر گامزن ہوجائے گی۔
ہماری گزارش یہ ہے کہ اگر تو فقہ کا اعلان اس وجہ سے کرنا ہے کہ کوئی رائج موقف سے سر مو انحراف نہ کرے، تو یہ امر محمود نہیں ہے، یہ تعصب و جمود ہے، جسے خود اہل مذاہب اور ان کے سربراہ ائمہ کرام بھی پسند نہیں فرماتے تھے کہ واضح دلائل کے باوجود اپنے موقف سے صرف اس وجہ سے رجوع نہ کیا جائے کہ وہ مسلک کا نمائندہ موقف نہیں ہے۔ امام مالک کو کہا گیا کہ آپ کی کتاب کو بطور فقہی قانونی کے نافذ کردیا جاتا ہے، انہوں نے اس پر موافقت کا اظہار نہیں کیا تھا، کیونکہ بہرصورت کوئی بھی فقہ یا موقف یا کتاب یا عالم دین کو قرآن وسنت کی نصوص کا درجہ نہیں دیا جاسکتا کہ کوئی اس سے اختلاف نہ کرسکے۔
اور اگر باقاعدہ فقہ کی تدوین کا مطالبہ مفتی صاحب اس وجہ سے کر رہے ہیں کہ علمائے کرام کا آپس میں اختلاف نہ رہے، تو یہ تو ان کے ہاں بھی ممکن نہیں، حالانکہ ان کے باقاعدہ مذاہب مرتب و مدون موجود ہیں، جیسا کہ تازہ مثال پیش کی گئی ہے کہ بعض حنفی علمائے کرام نے اہل حدیث کی طرح تین طلاق کے ایک ہونے کا فتوی دیا ہے۔
مفتی صاحب! ہماری یہی فقہ ہے کہ ہمارا قرآن وسنت کے علاوہ کوئی رائج دستور نہیں ہے کہ جس سے کوئی اختلاف نہ کرسکے۔ یہی ہمارا قانون ہے۔ جس طرح آپ کے پاس لوگ مسائل لے کر آتے ہیں اور آپ انہیں فقہی حنفی میں محصور ہو کر قرآن وسنت سے مسئلہ تلاش کرکے دیتے ہیں، اسی طرح جب ہمارے مفتیان کے پاس مسئلہ آتا ہے تو ہم اپنے منہج کے مطابق تمام مجتہدین و مذاہب کو سامنے رکھتے ہوئے براہ راست قرآن وسنت سے انہیں مسئلہ تلاش کرکے دیتے ہیں…!!
منہج کے اس فرق کو امام محمد بن إسماعیل الأمیر الصنعانی الیمانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ارشاد النقاد (ص 162،ط السلفیہ) میں خوبصورت سوالیہ پیرائے میں بیان فرمایا ہے:

“هلا جعل هَذَا الْمُقَلّد الْمُجْتَهد أَمَامه كتاب الله وَسنة نبيه صلى الله عَلَيْهِ وَسلم عوضا عَن كَلَام إِمَامه وتتبع نُصُوص الْكتاب وَالسّنة عوضا عَن تتبع نُصُوص إِمَامه والعبارات كلهَا أَلْفَاظ دَالَّة على مَعَانِيهَا فَهَلا استبدل بِأَلْفَاظ إِمَامه ومعانيها أَلْفَاظ الشَّارِع ومعانيها وَنزل الْأَحْكَام عَلَيْهَا إِذا لم يجده نصا شَرْعِيًّا عوضا عَن تنزيلها على مَذْهَب إِمَامه فِيمَا لم يجده مَنْصُوصا تالله لقد استبدل الَّذِي هُوَ أدنى بِالَّذِي هُوَ خير من معرفَة السّنة وَالْكتاب إِلَى معرفَة كَلَام الشُّيُوخ وَالْأَصْحَاب وتفهم مرامهم والتفتيش عَن كَلَامهم وَمن الْمَعْلُوم يَقِينا أَن كَلَام الله وَكَلَام رَسُوله أقرب إِلَى الأفهام وَأدنى إِلَى إِصَابَة بُلُوغ المرام فَإِنَّهُ أبلغ الْكَلَام بِالْإِجْمَاع وأعذبه فِي الأفواه والأسماع وأقربه إِلَى الْفَهم وَالِانْتِفَاع وَلَا يُنكر هَذَا إِلَّا جلمود الطباع وَمن لَا حَظّ لَهُ فِي النَّفْع وَالِانْتِفَاع والأفهام الَّتِي فهم بهَا الصَّحَابَة الْكَلَام الإلهي وَالْخطاب النَّبَوِيّ هِيَ كأفهامنا وأحلامهم كأحلامنا إِذْ لَو كَانَت الأفهام مُتَفَاوِتَة تَفَاوتا يسْقط مَعَه فهم الْعبارَات الإلهية وَالْأَحَادِيث النَّبَوِيَّة لما كُنَّا مكلفين وَلَا مأمورين وَلَا منهيين لَا اجْتِهَادًا وَلَا تقليدا أما الأول فلاستحالته وَأما الثَّانِي فلأنا لَا نقلد حَتَّى نفهم جَوَازه وأدلته وَلَا يفهم ذَلِك إِلَّا من أَدِلَّة الْكتاب وَالسّنة وَقد تعذر ذَلِك كَمَا قُلْتُمْ”.

اردو ترجمہ پیش خدمت ہے:
’’اس مقلد مجتہد نے امام کے کلام کو چھوڑ کر کتاب و سنت میں اجتہاد کیوں نہیں کیا؟، امام کے اقوال کھنگالنے کی بجائے کتاب و سنت کی نصوص کو تلاش کیوں نہیں کیا؟ حالانکہ دونوں طرف عبارات ہیں جو با معنی الفاظ پر مشتمل ہوتی ہیں اس نے امام کے الفاظ و معانی کو شارع کے الفاظ و معانی کا نعم البدل کیوں سمجھ لیا ؟ جب کسی جگہ واضح نص نہیں تھی تو امام کے منصوص اقوال پر قیاس کرنے کی بجائے نصوص شرعیہ میں غور و فکر کیوں نہیں کیا ؟
اللہ کی قسم ! اس نے اعلی کو چھوڑ کر ادنی کو اختیار کیا ہے کتاب و سنت کی معرفت حاصل کر نے کی بجائے اپنے شیوخ اور اصحاب کی باتوں کو سمجھنے اور ان کے مقاصد تلاش کرنے پر زور دیا ہے ۔ حالانکہ یہ بات قطعی طور پر معلوم ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی بات اقرب الی الأفہام اور مقاصد تک پہنچنے میں زیادہ رہنمائی کرتی ہے کیونکہ یہ بالاجماع سب سے بلیغ ہے اور زبان سے ادا کرنا یا اس کی سماعت زیادہ شیریں ہے ۔ اس بات کا انکار وہی شخص کرتا ہے جو جلمود الطبع اور افادہ و استفادہ کی اہلیت سے بالکل عاری ہے
جو سمجھ بوجھ صحابہ کو عطا ہوئی تھی کہ انہوں نے کلام الہی اور خطاب نبوی کو سمجھا اسی نعمت سے اللہ نے ہمیں بھی نوازا ہے کیونکہ (تغیر زمان وغیرہ کے سبب) اگر اتنا زیادہ فرق پڑ جائے کہ ہم سے قرآن وسنت کی سمجھ بوجھ کی اہلیت ہی ختم ہوجائے تو اس طرح تو ہم قرآن وسنت کے اوامر و نواہی کے مکلف ہی نہیں رہیں گے نہ اجتہاد کے ذریعے اور نہ کسی کی تقلید کرکے ۔
اجتہاد کے ذریعے اس لیے نہیں کیونکہ اس کی ہم اہلیت ہی نہیں رکھتے ۔ (جیساکہ مقلدین کہتے ہیں)
اور تقلید کے ذریعے اس طرح نہیں کہ تقلید ہم اسی وقت کریں گے جب اس کے جواز کے دلائل سمجھتے ہوں گے اور یہ کتاب و سنت سے ہی معلوم ہوگا جس کو پہلے ہی محال قرار دے دیا گیا ہے’’۔
خیر یہ خشک بحثیں اور پیچیدہ گتھیاں ہیں، جنہیں سوشل میڈیا کی جلد بازی کی بجائے مزید بہتر طریقے سے بھی سلجھایا جاسکتا ہے۔
سردست ہم اتنا عرض کریں گے کہ مفتی صاحب نے حنفی ہونے کے باوجود اہل حدیث مکتب فکر سے محبت اور تعلق کا اظہار فرمایا، تو ہم بھی الحمدللہ مفتی صاحب کی طرح تمام مسالک کے معتدل علمائے کرام کا احترام کرتے ہیں۔ اللہ تعالی سب کی محنتوں کاوشوں کو قبول و منظور فرمائے۔