رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«اطْلُبُوا الْخَيْرَ دَهْرَكُم كُلَّهُ، وَتَعَرَّضُوْا لِنَفَحَاتِ رَحْمَةِ اللهِ؛ فَإِنَّ للهَ – عز وجل – نَفَحَاتٍ مِنْ رَحْمَتِهِ يُصِيْبُ بِهَا مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ». [الدعاء للطبراني برقم:26، والمعجم الكبير له برقم:720، وشعب الإيمان للبيهقي برقم:1123، وحسن التنبه للغزي:4/424، والصحيحة للألباني:1890]

’ہر وقت خیر و بھلائی  کی تلاش میں رہا کرو، تاکہ تم رحمتِ الہی کے خاص جھونکوں سے بھی لطف اندوز ہوسکو، کیونکہ اللہ تعالی اپنی رحمتِ خاص کے جھونکے بھی بھیجتا ہے، اور اپنے خاص بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے، اس سے سرفراز فرماتا ہے‘۔

ایک معروف امام گزرے ہیں، الحکیم الترمذی کے نام سے، انہوں نے اپنی اپنی کتاب نوادر الاصول (2/293) میں اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد، اس کی تشریح و وضاحت اس طرح فرمائی کہ جس طرح بادشاہ نے اپنی رعایا کے لیے عمومی وظائف و عطیات مقرر کیے ہوتے ہیں، لیکن بعض دفعہ وہ اس سے بڑھ کر خصوصی انعامات بھی دیتا ہے، تو یہ خصوصی تحائف وہی حاصل کرپاتے ہیں، جو عام روٹین میں بھی بادشاہ کے دربار کے چکر کاٹتے رہتے ہیں۔ بلکہ بعض دفعہ تو یہ دنیاوی بادشاہ اپنے پاس آنے والوں کو اچانک اتنا نواز دیتےہیں کہ وہ ان کی پوری زندگی کے لیے کافی ہوجاتا ہے۔

جیسا کہ بعض روایات میں آتا ہے کہ:

“إن لربكم في أيام دهركم نفحات فتعرضوا لها لعل أحدكم أن يصيبه منها نفحة لا يشقى بعدها أبدا”. [ المعجم الكبير للطبراني:519 والصحيحة للألباني:1890]

’تمہارا رب مختلف اوقات و ایام میں اپنی رحمت کے خاص جھونکے بھیجتا ہے، تم انہیں تلاش کرنے کی کوشش کرو، شاید کہ کسی کو ایک جھونکا بھی نصیب ہوجائے، تو اس کی ساری زندگی سعادتوں سے مالا مال کرنے کو کافی ہے‘۔

ان خصوصی لمحات کا اللہ تعالی نے کسی کو بتایا نہیں ہے، تاکہ اللہ کے بندوں میں مسلسل اللہ کی طرف رجوع کرنے کی عادت پیدا ہو جائے۔  البتہ امید رکھی جاسکتی ہے کہ رمضان المبارک اور اس کا آخری عشرہ ضرور ان بابرکت لمحات میں سے ہے، جس میں رحمت الہی کی بادِ صبا تواتر اور تسلسل سے چلتی ہے۔ اللہ تعالی ہمیں اس سے مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔

کیا پتہ اس رمضان اور اس کے آخری عشرہ میں بالخصوص اللہ تعالی اپنے مومن بندے کو عبادت و ریاضت اور گناہوں سے دور رہنے کی ایسی توفیق دے دے کہ ساری عمر کے لیے اسی پر مہر ثبت ہوجائے، اور بندہ مومن کی دنیا کی ساری زندگی ہی رمضان ہو، اور آخرت اس کے لیے عید بن جائے۔

آخری عشرہ کی روٹین اور مسنون اعمال

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں:

“كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَجْتَهِدُ فِي رَمضانَ مَالا يَجْتَهِدُ في غَيْرِهِ، وَفِي العَشْرِ الأَوَاخِرِ منْه مَالا يَجْتَهدُ في غَيْرِهِ” [مسلم:1175]

’ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں بالخصوص محنت کرتے تھے، اور آخری عشرے میں اس سے بھی بڑھ کر جدوجہد فرماتے تھے‘۔

بالکل آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرے میں خصوصی محنت و عبادت کے لیے اعتکاف کا اہتمام فرماتے، تاکہ زیادہ سے زیادہ یکسوئی حاصل ہوسکے،عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

“كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْتَكِفُ الْعَشْرَ الأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ”. [بخاري:2025، ومسلم:1171]

’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے تھے‘۔

اعتکاف ’عکوف‘ سے ہے، جس کا مطلب ہے ٹھہرنا، اور کسی خاص مقام پر اپنے آپ کو روکے رکھنا ۔ شرعی طور پر اعتکاف سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنے کےلئے خصوصی طور پر مسجد میں ٹھہرنا۔
تاکہ بندہ مومن ہر طرف سے یکسو ہو کر ، الگ تنہائی میں اپنے خالق و مالک کی عبادت اور اس کے ذکر و فکر میں مشغول رہے ، توبہ و استغفار کرے ، اپنے گناہوں اور کوتاہیوں پر روئے ، اور آخری عشرے کے ان مقدس لمحات کو نوافل، تلاوتِ قرآن جیسی عبادات کی صورت میں بھر پور انداز سےگزارے، تاکہ اسے روحانی لذت بھی محسوس ہو، گناہوں کی معافی کا پروانہ بھی ملے اور ہزار مہینوں سے بھی افضل رات میں عبادت کی سعادت بھی حاصل ہوسکے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“تحَرَّوْا لَيْلَةَ القَدْرِ في العشْرِ الأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضانَ”. [بخاری:2020]

’لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کرو’۔

ایک دوسری روایت میں فرمایا:

“تَحرّوْا لَيْلةَ القَدْرِ في الوتْرِ مِنَ العَشْرِ الأَواخِرِ منْ رمَضَانَ”. [بخاری:2017، مسلم:1169]

’لیلۃ القدر کو آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو’۔

بلکہ اس عشرہ اخیرہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ اس قدر اہتمام کرتے تھے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں:

“كَانَ رسُول اللَّهِ ﷺ: إِذا دَخَلَ العَشْرُ الأَوَاخِرُ مِنْ رمَضَانَ، أَحْيا اللَّيْلَ، وَأَيْقَظَ أَهْلَه، وجَدَّ وَشَدَّ المِئزرَ”. [بخاری:1920، مسلم:1174]

’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوجاتا، آپ رات کو زندہ کرتے (یعنی جاگ کر عبادت کرتے) اپنے اہل و عیال کو بیدا کرتے، اور خوب محنت کرتے اور لنگوٹ کَس لیتے‘۔

ان مبارک راتوں میں جن اعمال پر خصوصی توجہ دینی چاہیے، وہ درج ذیل ہیں:

1۔ نفل نماز یعنی قیام اللیل کرنا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“مَنْ قَامَ لَيْلَةَ الْقَدْرِ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ”. [بخارى:1901، ومسلم:759]

جس کو ایمان و اخلاص کے ساتھ لیلۃ القدر کے قیام کی توفیق مل گئی، اس کے سابقہ تمام گناہ معاف کردیے جائیں گے۔

2۔ بہ کثرت قرآنِ کریم کی تلاوت. رمضان كو شهرِ قرآن بھی کہا گیا ہے، کیونکہ یہ مبارک کتاب اسی مقدس ماہ میں نازل کی گئی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بالخصوص رمضان میں مکمل قرآن کریم کا جبریل کے ساتھ دور کیا کرتے تھے، اور جبریل امين رمضان كی ہر رات کو آپ کے پاس حاضر ہوتے تھے۔ [بخاري:5 ومسلم:4268]

3۔ اللہ کے حضور دعا مانگنا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے استفسار کیا کہ اگر میں لیلۃ القدر پالوں، تو کون سی دعا مانگوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“اللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ العفْوَ فاعْفُ عنِّي”. [ سنن التِرْمذي:3513]

’اے اللہ، تو معاف کرنے والا، اور عفو و درگزر کو پسند کرتا ہے، لہذا مجھے معاف فرما دے‘۔

اس کے علاوہ بھی جو ضرورت و حاجت ہو، اور اللہ تعالی توفیق دے، دعائیں مانگی جاسکتی ہیں۔

ویسے تو کسی بھی وقت اللہ تعالی سے مانگنے میں کوتاہی اور شرم نہیں کرنی چاہیے، لیکن بالخصوص رمضان اور پھر آخری دس دنوں میں اور ان کی بھی طاق راتوں میں تو دل کھول کر اللہ رب العالمین سے مانگ لینا چاہیے، اللہ کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں، اس کے ہاں کچھ بھی ناممکن اور مشکل نہیں، کوئی بیماری نہیں، جس کی شفا نہ ہو، کوئی مشکل نہیں، جس کا حل نہ ہو، کوئی عادت و حالت نہیں، جسے وہ بدل نہ سکتا ہو۔

اللہ تعالی ہمیں رحمتوں، برکتوں، بخششوں کے اس موسمِ بہار سے بھرپور انداز سے مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔