روزے کی فرضیت اور فضیلت
پروفیسر سعید مجتبیٰ سعیدی صاحب حفظہ اللہ
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
فأعوذ بالله من الشيطان الرجيم:
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ () أَيَّامًا مَعْدُودَاتٍ} [البقرة: 183، 184]
احباب گرامی ماہ رمضان ہمارے سروں پہ سایہ فگن ہے۔ اللہ رب العزت اس مہینے کی برکتوں سعادتوں اور فضیلتوں سے کماحقہ استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اللہ تبارک و تعالی نے اہل ایمان پر ماہِ رمضان کے روزے فرض قرار دیے ہیں، اس حوالے سے ارشاد فرمایا:
﴿ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ﴾ اے ایمان والو ﴿ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ ﴾ تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں:﴿ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ ﴾ جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے﴿ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ﴾روزے کی فرضیت میں یہ حکمت ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو اور پھر فرمایا:﴿ أَيَّامًا مَعْدُودَاتٍ﴾
تاکہ کوئی انسان ایک مہینے کے روزوں کا سن کر پریشان نہ ہو جائے ، بلکہ یہ تو ایام معدودات یعنی گنتی کے چند دن ہیں۔ ماہِ رمضان کے دنوں کا روزہ رکھنا اہل ایمان پر فرض ہے اور یہ دین کی بنیاد ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
“بُنِيَ الإِسْلاَمُ عَلَى خَمْسٍ: شَهَادَةِ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامِ الصَّلاَةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالحَجِّ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ”. [صحيح البخاري:8]
یعنی اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے:
1. اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور اسکے ساتھ ساتھ یہ گواہی بھی دینا کہ حضرت محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔
2. اسلام کی دوسری بنیاد نماز قائم کرنا۔
3. تیسری بنیاد زکوٰۃ ادا کرنا۔
4. چوتھی بنیاد ہے بیت اللہ کا حج کرنا۔ اور
5. پانچویں چیز رمضان المبارک کے روزے رکھنا۔
چنانچہ ماہ رمضان کا روزہ ہر عاقل، بالغ، صحت مند اور باشعور مرد و عورت پر فرض ہے۔
روزے کا وقت: صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے اور نفسانی خواہشات پر کنٹرول کرنے اور جان بوجھ کر قے نہ کرنے کا نام روزہ ہے۔
روزہ انسان کو متقی اور پرہیز گار بنا دیتا ہے۔
روزہ بڑی عظیم عبادت ہے، اس حوالے سے نبی کریم ﷺ کے بہت سے ارشادات ہیں۔ ہم آج کی اس نشست میں احادیثِ صحیحہ کی روشنی میں روزے کی فضیلت کے حوالے سے کچھ مسائل کا تذکرہ کریں گے۔
• روزہ میرے لیے ہے، اور میں ہی اس کی جزا دوں گا:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ،آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ عزوجل کا ارشاد ہے،( یعنی حدیث قدسی ہے ، جس کا مطلب ہے کہ الفاظ رسول اللہ ﷺ کے ہیں معنی اور مفہوم اللہ تعالیٰ کا ہے)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
“كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ لَهُ إِلَّا الصِّيَامَ فَإِنَّهُ لِي وَأَنَا أَجْزِي به… ثم قال رسول الله: وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللَّهِ مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ”. [صحيح البخاري:1904]
انسان کا ہر عمل اس کے لیے ہوتا ہے سوائے روزے کے۔ کیونکہ باقی جتنے عمل ہیں وہ انسان کے اپنے لئے ہیں، البتہ انسان جو روزہ رکھے وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اسکی جزا دوں گا۔یعنی باقی اعمال کا ثواب فرشتے لکھتے ہیں ، لیکن روزے کے بارے میں فرمایا کہ میں ہی بہتر جانتا ہوں کہ اسکی کتنی جزا دوں گا۔
پھر نبی اکرم ﷺ نے قسم کھا کر فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میں محمد ﷺکی جان ہے ، روزہ رکھنے کی وجہ سے مومن آدمی کے معدہ سے ناپسندیدہ ناخوشگوار بو منہ کے راستے آتی ہے، وہ بظاہر تو نا پسندیدہ ہوتی ہے لیکن اللہ کے ہاں کستوری سے بھی زیادہ پسندیدہ ہو گی۔ اس سے روزے کی فضیلت کا پتہ چلتا ہے۔
• سابقہ تمام گناہوں کی معافی کا ذریعہ:
دوسری حدیث میں نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
” مَنْ صَامَ رَمَضَانَ، إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ”. [صحيح البخاري:38]
کہ جو شخص ایمان کی حالت میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اجر حاصل کرنے کی نیت سے روزہ رکھے، اسکے سابقہ زندگی کے سارے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ روزہ انتہائی بابرکت اور فضیلت والا عمل ہے اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول ہو جائے تو انسان کے سابقہ سارے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔
• روزہ ڈھال ہے:
اللہ تعالیٰ نے روزہ کے بارے ایک اور بات ارشاد فرمائی: الصِّيَامُ جُنَّةٌ[صحيح البخاري:1904] روزہ ڈھال ہے۔
جس طرح میدان جنگ میں دشمن کے وار اور حملے سے بچنے کے لیے ایک مجاہد ڈھال استعمال کرتا ہے تاکہ اسکے وار سے بچ سکے اسی طرح جھنم سے بچنے کے لیے روزہ ڈھال کا کام دے گا۔
• جہنم کی آگ اور ایک دن کا روزہ:
روزے کی فضیلت کے حوالے سے رسول اللہ ﷺ نے ایک اور بات بھی ارشاد فرمائی ہے:
“مَا مِنْ عَبْدٍ يَصُومُ يَوْمًا فِي سَبِيلِ اللهِ، إِلَّا بَاعَدَ اللهُ، بِذَلِكَ الْيَوْمِ وَجْهَهُ عَنِ النَّارِ سَبْعِينَ خَرِيفًا”. [صحيح مسلم:1153]
جو آدمی اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے روزہ رکھ لے، تو اس روزہ کی برکت سے اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کو جہنم کی آگ سے ستر سال کی مسافت تک دور کر دے گا۔
• روزہ دار کے لیے دوہری خوشی ہے:
نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
“لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ يَفْرَحُهُمَا إِذَا أَفْطَرَ فَرِحَ وَإِذَا لَقِيَ رَبَّهُ فَرِحَ بِصَوْمِهِ”. [صحيح البخاري:1904]
دو وقت روزہ دار کے لیے بڑے ہی خوشی کے ہوں گے: ایک تو جب وہ روزہ افطار کرتا ہے بڑی فرحت اور خوشی محسوس کرتا ہے وہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے کہ تو نے مجھے سارا دن روزہ رکھنے کی اور اپنی رضا کے مطابق دن گزارنے کی توفیق عطا فرمائی ہے، دوسرا موقعہ جب اللہ تعالیٰ سے ملاقات ہو گی اور اللہ تعالی اسے روزے کی جزا عطا فرمائے گا، تو روزے دار اپنے روزے کی وجہ سے فرحت راحت اور خوشی محسوس کرے گا کہ میں نے روزہ رکھا تھا اللہ تبارک و تعالی نے مجھے یہ عظیم فضیلت اور ثواب عطا فرمایا۔
• جنت میں خصوصی دروازے سے داخلہ:
سیدنا سہل رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
“إِنَّ فِي الْجَنَّةِ بَابًا يُقَالُ لَهُ الرَّيَّانُ يَدْخُلُ مِنْهُ الصَّائِمُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَا يَدْخُلُ مِنْهُ أَحَدٌ غَيْرُهُمْ يُقَالُ أَيْنَ الصَّائِمُونَ فَيَقُومُونَ لَا يَدْخُلُ مِنْهُ أَحَدٌ غَيْرُهُمْ فَإِذَا دَخَلُوا أُغْلِقَ فَلَمْ يَدْخُلْ مِنْهُ أَحَدٌ”. [صحيح البخاري:1896]
جنت کا ایک دروازہ ہے جسے”ریان” کہاجاتاہے۔ قیامت کے دن اس سے روزہ دار ہی گزریں گے۔ ان کے علاوہ کوئی دوسرا اس میں سے داخل نہیں ہوگا۔ آواز دی جائے گی روزہ دار کہاں ہیں؟ تو وہ اٹھ کھڑے ہوں گے ان کے سوا کوئی دوسرا اس میں سے داخل نہیں ہوگا۔ جب وہ داخل ہوجائیں گے تو اسے بند کردیا جائے گا، کوئی اور اس میں داخل نہ ہوگا۔
اس مبارک مہینے کی قدر کیجیے!
احبابِ گرامی! اللہ کا شکر ہے کہ ماہ رمضان ہمیں زندگی میں ایک بار پھر حاصل ہوا ہے، جبکہ ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو کتنے ہی احباب جو کہ گزشتہ رمضان موجود تھے، ہمارے ساتھ روزے رکھتے رہے، نماز تراویح ادا کرتے رہے، لیکن اس سال نظر نہیں آ رہے ہیں۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہےکہ آئندہ سال ہم میں سے کون زندہ ہوں گے جنہیں یہ مہینہ نصیب ہو گا اور کون ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کے پاس چلے جائیں گے۔
اس لیے ان دنوں کی قدر کرنی چاہیے، یہ ماہ رمضان شروع سے لے کر آخری گھڑی تک برکتوں سے معمور ہے فضیلتوں سے معمور ہے ہمیں اس وقت کی قدر کرتے ہوئے ماہ رمضان کے دنوں اور راتوں میں بڑھ چڑھ کر نیکی کا عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
اللہ رب العزت ہمیں اخلاص کے ساتھ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔