سب سے افضل عمل

✿۔ معاویہ بن قرہ بیان کرتے ہیں:

تَذَاكَرُوا عِنْدَ الْحَسَنِ أَيُّ الْأَعْمَالِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: «فَكَأَنَّهُمُ اتَّفَقُوا عَلَى قِيَامِ اللَّيْلِ» . قَالَ: فَقُلْتُ أَنَا: تَرَكُ الْمَحَارِمِ. قَالَ: فَانْتَبَهَ الْحَسَنُ لَهَا فَقَالَ: «تَمَّ الْأَمْرُ. تَمَّ الْأَمْرُ».

امام حسن بصری رحمہ اللہ کے پاس ذکر ہوا کہ (نوافل میں) سب سے افضل عمل کون سا ہے؟ گویا سب متفق ہو گئے کہ ’’قیام اللیل‘‘ ہے ۔ میں نے کہا : ’’حرام چیزوں سے اجتناب ۔‘‘ تو حسن رحمہ اللہ دفعتاً متوجہ ہوئے اور (تائید کرتے ہوئے) فرمانے لگے : بات ہی ختم، بات ہی ختم۔ (الورع لابن أبي الدنيا : ٣٦ وسنده صحیح)
’’سلف صالحین کی دنیا سے بے زاری‘‘
✿۔ ہشام بن حسان بیان کرتے ہیں، میں نے حسن بصری رحمہ اللہ کو فرماتے سنا :

وَاللَّهِ، لَقَدْ أَدْرَكْتُ أَقْوَامًا وَإِنْ كَانَ أَحَدُهُمْ لَيَرِثُ الْمَالَ الْعَظِيمَ قَالَ: وَإِنَّهُ وَاللَّهِ، لَمَجْهُودٌ شَدِيدُ الْجَهْدِ قَالَ: فَيَقُولُ لِأَخِيهِ: يَا أَخِي، إِنِّي قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ ذَا مِيرَاثٌ وَهُوَ حَلَالٌ وَلَكِنِّي أَخَافُ أَنْ يُفْسِدَ عَلَيَّ قَلْبِي وَعَمَلِي فَهُوَ لَكَ لَا حَاجَةَ لِي فِيهِ قَالَ: فَلَا يُرْزَأُ مِنْهُ شَيْئًا أَبَدًا قَالَ: وَهُوَ وَاللَّهِ مَجْهُودٌ شَدِيدُ الْجَهْدِ قَالَ: وَسَمِعْتُ الْحَسَنَ يَقُولُ: وَاللَّهِ أَدْرَكْتُ أَقْوَامًا كَانُوا فِيمَا أَحَلَّ اللَّهُ لَهُمْ أَزْهَدَ مِنْكُمْ فِيمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ وَلَقَدْ كَانُوا أَشْفَقَ مِنْ حَسَنَاتِهِمْ أَنْ لَا تُقْبَلَ مِنْهُمْ مِنْكُمْ أَنْ تُؤَاخَذُوا بِسَيِّئَاتِكُمْ.

’’اللہ کی قسم! میں نے ایسے لوگ دیکھے ہیں کہ اُن میں سے کسی کو وراثت میں بہت سارا مال ملتا تو اللہ کی قسم! وہ اس کی وجہ سے شدید تنگی محسوس کرتا بالآخر اپنے مسلمان بھائی سے گزارش کرتا، میرے بھائی! آپ جانتے ہیں کہ یہ مالِ میراث ہے اور حلال ہے لیکن مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں، یہ آپ لے لیں ۔ وہ اس میں سے کوئی چیز بھی اپنے پاس نہیں رکھتا تھا بلکہ اللہ کی قسم! اِس کی وجہ سے نہایت تکلیف میں مبتلا رہتا ۔‘‘
بیان کرتے ہیں : ’’اللہ کی قسم! میں نے ایسے لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ اللہ تعالی کی حلال کردہ چیزوں سے اُس سے کہیں زیادہ دور رہتے تھے جتنا تم حرام سے دوری اختیار کرتے ہو اور جتنا تمہیں اپنے گناہوں کے سبب پکڑے جانے کا ڈر ہے وہ اس سے کہیں زیادہ اپنی نیکیوں کی قبولیت کے بارے فکر مند رہتے تھے۔‘‘ (الزهد لأحمد : ١٤٥٩ وسنده صحیح)
’’فرائض ہمارا حقیقی سرمایہ ہیں۔‘‘
✿۔ ہشام بن عروہ بیان کرتے ہیں :

«كَانَ أَبِي يُطَوِّلُ فِي الْفَرِيضَةِ وَيَقُولُ هِيَ رَأْسُ الْمَالِ».

’’میرے والد عروہ بن زبیر رحمہ اللہ فرائض کو خوب طویل کرتے اور فرمایا کرتے کہ یہی ہمارا اَصل سرمایہ ہے۔‘‘ (الورع لابن أبي الدنيا : ٢٥ وسنده حسن)

حافظ محمد طاهر

والد کی دعا

✿۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

«ثَلَاثُ دَعَوَاتٍ مُسْتَجَابَاتٌ لَا شَكَّ فِيهِنَّ دَعْوَةُ الْوَالِدِ وَدَعْوَةُ الْمُسَافِرِ وَدَعْوَةُ الْمَظْلُومِ».

’’تین دعاؤں کے قبول ہونے میں کوئی شک نہیں: والد کی دعا، مسافر کی دعا اور مظلوم کی دعا۔‘‘ (سنن أبي داود : ١٥٣٦ وسنده حسن)
⇚امام مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

«دَعْوَةُ الْوَالِدِ لَا تُحْجَبُ عَنِ اللَّهِ، وَدَعْوَةُ الْمَظْلُومِ لَا تُحْجَبُ دُونَ اللَّهِ حَتَّى تَنْتَهِيَ إِلَيْهِ فَيَقْضِيَ فِيهَا مَا شَاءَ».

’’والد کی دعا اور اللہ تعالی کے مابین کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی اور نہ ہی مظلوم کی دعا کے اللہ تعالی تک پہنچنے میں کوئی رکاوٹ ہوتی ہے پھر اللہ تعالی اس میں جو چاہتے ہیں فیصلہ فرما دیتے ہیں۔‘‘ (الزهد لهناد : ٩٧٨ وسنده صحیح)
⇚ عون بن عبد اللہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :

«أَرْبَعٌ لَا يُحْجَبْنَ عَنِ اللَّهِ: دَعْوَةُ وَالِدٍ رَاضٍ، وَإِمَامٍ مُقْسِطٍ، وَدَعْوَةُ الْمَظْلُومِ، وَدَعْوَةُ الرَّجُلِ دُعَاءً لِأَخِيهِ بِظَهْرِ الْغَيْبِ».

’’چار چیزوں کے اللہ تعالی تک پہنچنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی، راضی والد کی دعا، عادل حکمران اور مظلوم کی دعا، اور آدمی کی اپنے مسلمان بھائی کی غیر موجودگی میں اس کے لیے کی گئی دعا۔‘‘ (مصنف ابن أبي شيبة : ٢٩٣٧٣ وسنده صحیح)

حافظ محمد طاهر

یہ بھی پڑھیں: کیا سارا قرآن صرف ترجمے سے سمجھ آ جاتا ہے؟