ساحل عديم اور قيصر راجا

سیکولر اور لبرل قوم کے مقابلے میں ساحل عدیم حق پر ہے، ان لوگوں کو وہ جس طرح اسلام اور دین کی اہمیت سمجھاتے ہیں یہ ان کا پلس پوائنٹ ہے۔
لیکن
علم اور علماء سے متعلق ساحل عدیم صاحب بالکل غلط نظریات کے حامل ہیں… نہ علم کو سمجھتے ہیں نہ علماء کو اور نہ ہی اس مدارس سسٹم کو سمجھتے ہیں، جس پر وہ اپنی ہر پوڈ کاسٹ میں تنقید کرتے ہیں!
اس حوالے سے قیصر راجا کی پوزیشن ساحل عدیم سے بہت بہتر ہے، اور اس کی وجہ یہی ہے کہ قیصر راجا علماء اور مدارس کے ساتھ رابطے میں ہیں، اور اس سسٹم کی خوبیوں، خامیوں پر ان کی نظر ہے۔
رات بھی ایک طویل پوڈ کاسٹ جس میں یہ دونوں موجود تھے، دیکھ کر یہی سمجھ آئی! eon podcast میں چار لوگ تھے، اسلام کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ اور تڑپ چاروں میں تھی، اور اس حوالے سے انہوں نے جس انداز سے تجزیے اور تبصرے کیے، سن کر خوشی ہوئی کہ اس کلاس میں بھي ایسے لوگ موجود ہیں، لیکن منہجی مسائل، اقامت دین اور مدارس سے متعلق تین لوگوں کی معلومات نہ صرف سطحی تھیں، بلکہ انتہائی غلط سلط تھیں، جبکہ قیصر راجا کی باتیں معقول تھیں، وجہ وہی جو اوپر بیان ہوچکی کہ وہ علماء اور مدارس کی خدمت میں حاضر ہوتے رہتے ہیں!!
بہرصورت اپنی طرف سے ایسے ہی کوئی مفروضہ قائم کرکے اس پر نتائج اخذ کرنا شروع کردینا یہ اس طبقے کا عام مسئلہ ہے، ہم نہیں کہتے کہ ایسے لوگ انقلاب نہیں لا سکتے، لیکن ایسے انقلاب کا کیا فائدہ جس کی بنیاد ہی مفروضوں اور جھوٹے بیانیوں پر رکھی جائے!!
یہاں ایک دلچسپ بات بھی سن لیں کہ ماڈرن اسپیکرز میں ساحل عدیم صاحب بھی ’پڑھے لکھے’ سمجھے جاتے ہیں، کل کی پوڈ کاسٹ میں وہ لوگوں کی بالکل ویسے ہی غلطیاں نکال رہے تھے، جیسی وہ خود کرتے ہیں اور علماء اس پر انہیں شرم دلاتے ہیں!!
اقامتِ دین بڑی عظیم اصطلاح ہے، اور یہ اہم دینی فریضہ ہے، لیکن جب آپ کو دین اور اہل دین کے متعلق علم نہیں ہے، تو آپ اکیلی ’اقامت’ یعنی ’انقلاب’ تو لا سکتے ہیں، دین کی اقامت بہر صورت نہی کر سکتے!
گاڑی اگر سڑک سے نیچے اتر جائے تو کمال یہ ہے کہ اسے اسی شاہراہ پر گامزن کیا جائے، جو ’صراط مستقیم’ ہے، اگر آپ ایک طرف سے نکال کر دوسری طرف پھینک دیں، تو یہ تبدیل اور انقلاب تو ہے، لیکن دین کی خدمت بہر صورت نہیں ہے!!
ولن يصلح آخر هذه الأمة إلا بما صلح به أولها
آپ کو اچھا لگے یا برا لگے، بہرصورت آپ کو اہل دین اور علماء کے ساتھ تو جڑنا ہی پڑے گا، کیونکہ اسلامی روایت اور میراث نبوت سے تعلق کی اور کوئی صورت نہیں ہے!!
قیصر راجا اس بات کو سمجھتا ہے، جبکہ ساحل عدیم جیسے اسپیکرز اپنی تمام تر ذہانت و فطانت کے باوجود اس نکتے کو سمجھنے سے عاری ہیں!
والله المستعان وهو الهادي إلى سواء السبيل!!
سب جانتے ہیں کہ قیصر راجا نے مرزا جہلمی صاحب کو سیکولرز کی حمایت سے روکا اور اس سلسلے میں ان کی غلط فہمیاں دور کرنے کی کوشش کی، لیکن مرزا صاحب نے عادت کے ہاتھوں مجبور ہو کر، انہیں بھی اپنا فریق سمجھ لیا اور پھر قیصر راجا vs مرزا جهلمی ایک سلسلہ چل نکلا۔
جس پر ساحل عدیم صاحب کی رائے یہ ہے کہ یہ دونوں قیمتی لوگ ہیں، انہیں آپس میں ڈیوائڈ یعنی تقسیم نہیں ہونا چاہیے، لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ یہی ساحل صاحب جنہیں جہلمی صاحب کی شکل میں ایک مفکر اعظم نظر آتا ہے، وہ سارے کے سارے مدارس کو ’اقامتِ دین’ کے لیے ’نا اہل‘ سمجھتے ہیں۔ قیصر راجا صاحب کو ساحل عدیم صاحب کو سمجھانا چاہیے کہ اگر مرزا جہلمی پر تنقید اور اختلاف سیکولر کو فائدہ پہنچا سکتی ہے، تو کیا مدارس اور مولویوں پر تنقید ( جو ساحل صاحب نے ہر پوڈ کاسٹ میں کرنی ہوتی ہے) کو نفاذِ دین میں رکاوٹ سمجھ کر چھوڑا نہیں جا سکتا؟!
کیا لاکھوں علماء اور ہزاروں مدارس میں اتنی بھی خیر نہیں، جتنی ایک سراپائے شر مرزا جہلمی صاحب میں آپ کو نظر آرہی ہے؟!

#خیال_خاطر

یہ بھی پڑھيں:اصلاح احوال کے نام پر کچھ کہہ مکرنیاں