شاید کہ پھٹ ہی جائے جگر آسمان کا

دل دوز چیخوں اور دل فگار سسکیوں پر بھی اِن کی سمع خراشی تک نہیں ہو رہی، مسندِ اقتدار پر براجمان 57 اسلامی ممالک کے حکمرانوں کے چہروں پر کوئی حزن ہے نہ ملال، ان کے دلوں میں کوئی بے کلی ہے نہ اضطراب، یہ اپنے اپنے عشرت کدوں میں اپنے لبوں پر تبسم سجائے غزہ میں گزرنے والی قیامت سے جان بوجھ کو انجان بنے ہوئے ہیں، ان اسلامی مالک کے حکمرانوں کے شب و روز میں وہی عیش کوشی ہے، ان کے بنگلوں اور محلوں میں عیش و نشاط میں رتی برابر فرق نہیں پڑا۔ساری امتِ مسلمہ بھی کسی قیامت کی نذر ہوئے تب بھی ان کے دل و دماغ میں کوئی خفیف سا بھونچال تک نہیں آئے گا۔کتنے ہی خون میں لتھڑے مناظر سوشل میڈیا پر غزہ کے بچوں کی چیخ پکار سے لدے ہیں مگر اُن مظلوموں کے جگر پاش واویلوں اور دل سوز آہ و بکا کا عالمی برادری پر بھی کچھ اثر نہیں پڑ رہا۔غزہ کو بھسم کر دیا گیا، وہاں کے بچوں کے جسموں کی بوٹیاں اڑا دی گئیں، ان کی عورتوں کے جسم و جاں کی دھجیاں بکھیر دی گئیں، مگر سب پر ایک سکتہ طاری ہے۔مریم نواز شریف صاحبہ! ایک طائرانہ سی نظر غزہ پر بھی ڈال لیں، شاید آپ کو بڑی بے صبری سے بھوک کا مارا پانچ سال کا بچہ گھاس کھاتا نظر آ جائے، ممکن ہے اپنے تباہ و برباد گھر کو دیکھ چیختا چلاتا اور اللہ اللہ کی صدائیں لگاتا ایک ننھا سا بچہ بھی دِکھائی دے جائے، شاید غزہ کے کفن میں لپٹے سیکڑوں بچوں کے متعلق کچھ ترحمانہ جذبات آپ کے دل میں پیدا ہو جائیں۔کیا یہودیوں کی اس قدر تباہی کے باوجود بھی ان سیاست دانوں کے دلوں میں ملال کا کوئی جذبہ نہیں پیدا ہو رہا ہے، حیرت ہے کہ شہباز شریف کے حواس خمسہ میں بھی غزہ سے اٹھتی آہ و زاریوں پر کوئی کسک پیدا نہیں ہو رہی؟ کیا قومی اسمبلی کے اجلاس میں ایک دوسرے پر بہ بانگِ دہل کیچڑ اچھالنے والوں کی آنکھوں نے غزہ کے بچوں کے لیرولیر جسموں کا کوئی ایک منظر بھی نہیں دیکھا، افسوس! کہ غزہ کے بچوں کے کٹے پھٹے جسموں سے ابلتا خون دیکھ کر بھی ان کے دل اس قدر مطمئن کس طرح ہیں؟ ان کا رونا دیکھ کر دل کٹ کے رہ جاتا ہے، سات آٹھ سالہ بچیاں اپنے چھوٹے چھوٹے بھائی بہنوں کو گود میں اٹھائے دل دہلا دینی والی چیخیں مار رہی ہیں، مگر ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔حمیت تیمور کے گھر سے گئی تھی اب عرب عجم کے سیاست دانوں کے گھر سے بھی رخصت ہو چکی ہے، معصوم اور ننھی کلیوں کی آہ و زاری کا ایک خون آلود منظر صہیونیوں نے فلسطین جبالہ گرلز ہائی سکول کے باہر افطاری کرتے ہوئے معصوم بچیوں پر بم برسا کر بپا کر دیا، بچیوں کے ننھے وجود کو بوٹیوں میں بدل دیا گیا، چھوٹے چھوٹے بچوں کی جلی کٹی لاشوں کے ڈھیر لگ گئے، سیکڑوں بچوں کے جسموں سے خون کے فوارے نکلنے کی ویڈیو دیکھ کر کلیجا دہل جاتا ہے مگر اس سے بھی زیادہ مسلم حکمرانوں کی سنگلاخ دلی دیکھ کر دل لرز جاتے ہیں، ان مسلم راہ نماؤں سے تو وہ صحافی عظیم المرتبت ٹھہرا ہے کہ جب ایک امریکی وزیر نے کہا کہ تمام فلسطینیوں کو قتل کر دو تو وہ صحافی اس پر جھپٹ پڑا۔ان سیاسی قائدین سے تو ٹینس سٹار انس جابر ہی عالی وقار ثابت ہوئی۔وہ مارکیٹا ونڈروسووا سے میچ جیت کر جذباتی ہو گئی، وہ غزہ پر صہیونی ظلم و سربریت پر دل گرفتہ تھی۔انس جابر نے آنسوؤں کی جھڑی میں کہا کہ ” مجھے خوشی ہے کہ ہم جیت گئے، لیکن دنیا کی حالیہ صورتِ حال دیکھ کر مَیں زیادہ خوشی محسوس نہیں کر رہی “ اس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ” روزانہ ننھے بچوں کو مرتا دیکھنا بہت مشکل ہے، انھیں دیکھ کر میرا دل بہت دکھی ہوتا ہے، اس لیے میں اپنی انعامی رقم کا ایک حصہ فلسطینیوں کی مدد کے لیے عطیہ کرتی ہوں۔“
اکثر سیاست دانوں کی عمریں پچاس ساٹھ سال سے زیادہ ہو چکی ہیں، آخر باقی زندگی رہ کتنی گئی ہے؟ بہت جلد اللہ سامنے بھی پیش ہونا ہے، امتِ مسلمہ کے سب سے بڑے مجرم یہ سیاست دان کس منہ سے اللہ کے سامنے کھڑے ہوں گے ؟اور اللہ کے سامنے اپنے اس جرم تغافل کا کیا جواز پیش کریں گے؟ غزہ کے بچوں کے ہاتھ ان سب مسلم حکمران کی گریبانوں میں ہوں گے، کیا قیامت کے دن غزہ کے شہید ہونے والے بچے ان کے گریبان نوچ نہیں ڈالیں گے؟صدام ساگر کے اشعار ہیں:-
سب ہی اپنے حق کی خاطر کر رہے ہیں احتجاج
دوسروں کے واسطے کیوں بولتا کوئی نہیں
کٹ رہے معصوم بچے آج بھی اقصیٰ میں دیکھ
آپ کہتے ہیں کہیں پر مسئلہ کوئی نہیں
دنیا میں جتنی یہودیوں کی تعداد ہے، اس سے زیادہ دنیا میں علما، پیر، فقیر اور گدی نشین موجود ہیں مگر دیکھ لیں کسی عالم، فاضل اور پیر فقیر کی دعا فلسطینوں کے حق میں قبول نہیں ہو رہی اس لیے کہ جو لوگ قیام کے وقت سجدے میں گر جاتے ہیں، ان سے بڑا نادان کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔
فلسطین آج سفاک یہودی نرغے میں بے یار و مددگار ہے، قبلہ ء اول بے بسی اور بے چارگی کے حصار میں جکڑا ہے، کٹے پھٹے اور خون ٹپکتے چہروں کے ساتھ واویلا کرتے چھوٹے بچے اپنے سے بھی چھوٹے بچوں کو گود میں لیے کھڑے سسک رہے ہیں، لگتا ہے کہ ان بچوں کے سسکتے تڑپتے اور آہ و فغاں کرتے وجود کو دیکھ کر آسمان پھٹ پڑے گا مگر ایسا بھی اس وقت تک نہیں ہو گا جب تک غزہ کو خون میں لتھڑا دیکھ کر ہمارے اپنے جگر تلملا نہیں جاتے۔ایسی بے بسی چشمِ فلک نے کبھی نہیں دیکھی ہو گی اور ایسی آنسوؤں میں ڈھلی چیخیں بھی کہیں نہیں سنی گئی ہوں گی۔
شاید کہ پھٹ ہی جائے جگر آسمان کا
اس بے بسی میں دل سے بس ایک چیخ ماریے

( انگارے۔۔۔حیات عبداللہ )

یہ بھی پڑھیں: لکڑی کا مولوی