حال ہی میں مکتبہ نعیمیہ مئو ناتھ بھنجن سے ایک مختصر کتاب “سعادۃ الدارین: ترجمہ تعلیقات سلفیہ برتفسیر جلالین” منظر عام پر آئی ہے، جس کے مترجم ومحشی جناب مولانا اسعد اعظمی، استاذ جامعہ سلفیہ بنارس ہیں۔ بعض محبان علم اور شائقین کتاب اس کتاب کے مشتملات کے تعلق سے کنفیوزن کا شکار ہیں، چنانچہ کوئی استفسار کررہا ہے کہ کتاب کی ضخامت کیا ہے، کوئی اس کی جلدوں کی تعداد پوچھ رہا ہے الخ، غالبا یہ سمجھا جارہا ہے کہ کتاب پوری تفسیر جلالین اور اس کے حواشی کا ترجمہ ہے۔ اس لیے مناسب معلوم ہوا کہ اس ابہام کو دور کرتے ہوئے کتاب کے مشتملات وضاحت کے ساتھ بیان کردیے جائیں۔

کتاب کے نام پر غور کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ یہ صرف تفسیر جلالین کے سلفی حواشی کا ترجمہ ہے، یہ نہایت ہی مختصر ہے اور محض 132/صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ تفسیر بر صغیر کے بیشتر مدارس میں داخل نصاب ہے۔ اس کے دونوں مصنفین عقیدۃً اشعری ہیں، اور اشاعرہ کے عقیدہ کے مطابق اللہ تعالیٰ کی کچھ صفات میں تاویل اور تعطیل کی راہ اختیار کی ہے جو سلفی منہج کے خلاف ہے۔ اس لیےمکتبہ دار السلام ریاض نے اس کتاب پر معروف اہل حدیث عالم مولانا صفی الرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ کی نگرانی میں ایک کمیٹی بنائی جس نے ان مقامات کی نشان دہی کی جہاں شیخین نے صفات میں تاویل کی راہ اپنائی ہے اور ان مقامات پر صحیح عقیدہ کی وضاحت کی۔ اس کےعلاوہ کمیٹی نے کچھ اور حواشی بھی چڑھائے ہیں۔ چنانچہ مترجم کتاب نے “حواشی کی نوعیت” کے عنوان سے اپنے مقدمہ میں حواشی کے مشتملات کا درج ذیل نقاط میں تذکرہ کیا ہے:

1- صفات باری تعالیٰ کی تاویل وتعطیل اور عقیدے سے متعلق دیگر انحرافات پر تنبیہ
2- دونوں مفسرین کے اوہام واغلاط اور سبقت قلم کی نشان دہی اور تصحیح
3- غیر مستند واقعات وتفاسیر پر تنبیہ
4- مرجوح تفسیروں کی نشان دہی اور راجح کا ذکر
5- کتاب میں بیان کی گئی قراءتوں پر نوٹ
6- کتاب میں وارد احادیث وآثار کا ان کے مراجع کی طرف احالہ اور بعض روایتوں پر نقد

اس کے علاوہ تفسیر جلالین کے ہندوستانی نسخہ میں درج قراءتوں میں واقع التباس کو بھی جگہ جگہ مترجم نے دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسی طرح ہندوستانی نسخہ اور زیر ترجمہ عربی نسخہ کے درمیان جہاں جہاں فرق ہے اس کو بھی مترجم نے حاشیہ میں واضح کیا ہے۔
ان مندرجات کی وجہ سے یہ مختصر کتاب کافی اہمیت کی حامل ہوگئی ہے، بالخصوص اہل حدیث مدارس میں تفسیر جلالین پڑھانے والے اساتذہ اور پڑھنے والے طلبہ کے لیے یہ کتاب حد درجہ مفید ہے۔

یاسر اسعد