آخری عشرے کی طاق راتیں جلسوں، لچھے دار تقریروں ، حمد اور نعتوں میں ضائع کردینے کی مخالفت سمجھ میں آتی ہے اور بلاشبہ یہ رویہ رمضان کے مقصود کے خلاف ہے لیکن مختصر تفسیر کی مجلسوں ، قرآن وسنت پر مشتمل دروس سے بھی روکنا اور ان کو بھی بدعت قرار دینا زیادتی ہے ۔
رمضان کی راتوں میں قرآن کا مدارسہ کرنا اللہ کے نبی ﷺ کی ثابت شدہ سنت ہے، مسند احمد کی روایت ہےکہ
“نبی ﷺ کی سخاوت رمضان میں عروج پر ہوتی ، جب جبرئیل اللہ کے نبی ﷺ سے ملنے آتے ، وہ ہر رات اللہ کے نبی ﷺ سے ملنے آتے اور آپ کو قرآن کا دور کراتے( يُدَارِسُهُ الْقُرْآنَ) ، تو جب نبی ﷺ جبرئیل سے ملتے تو آپ کی سخاوت تیزہواؤں سے بھی زیادہ ہوتی ہے ۔ (مسند احمد:3539)
حدیث کے الفاظ ہیں” يُدَارِسُهُ الْقُرْآنَ”، مدراستہ باب مفاعلہ سے جس میں اشتراک کے معنیٰ پائے جاتے ہیں،یعنی یہ محض ایک طرف سے قرآن سنانے کے معاملہ نہیں ہوتا تھا، بلکہ اس سننے اور سنانے میں دونوں شریک ہوتے تھے، اور یہ سننا سنانا محض الفاظ کا ہی نہیں ہوتا تھا، بلکہ معانی میں غور فکر اور آیات میں تدبر بھی اس میں شامل ہوتا ، اس لیے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کو مذاکرہ سے تعبیر کیا ہے۔ اور اسی مذاکرہ کے نتیجے میں نبی ﷺ کو نفس کا غناء حاصل ہوتا تھا جو رمضان میں سخاوت میں اضافے کا سبب بنتا تھا۔
اس مدارسہ کے عموم میں وہ دروس بھی شامل ہیں جو رمضان کی راتوں میں منعقد کیے جاتے ہیں جن کا مقصد قرآنی آیت کی تفسیر و تشریح اور اس کے معانی میں تدبر ہے ، یہ عین رمضان کا مقصود ہے اور اپنے آپ میں ایک عظیم عبادت ہے ۔
دوسری بات یہ کہ رمضان کی رات میں تلاوت قرآن کے تو سبھی قائل ہیں لیکن اس فرق پر بھی غور کرنا چاہیے کہ صحابہ کی تلاوت ہم عجمیوں کی طرح محض الفاظ کو دہرانے والی نہیں ہوتی ہے ، بلکہ وہ قرآن کو سمجھ کر پڑھتے، اس کے معانی کی تاثیر اپنے دلوں میں محسوس کرتے تھے، جس سے ان کی آنکھیں نم اور دل نرم ہوتے تھے، یہ تلاوت کے مقاصد میں سے ایک اہم ترین مقصد ہے اور یہ مقصد بغیر معانی کی سمجھ کے حاصل نہیں ہوسکتا ،اسی لیے اللہ کے نبی ﷺ نے صحابہ کو تین دن سے کم میں قرآن ختم کرنے سے یہ کہہ کر روک دیا تھا کہ” لا يفقَهُ مَن قرأَ القرآنَ في أقلَّ مِن ثلاثٍ” جس نے تین دن سےکم میں قرآن ختم کیا اس نے قرآن کو سمجھا ہی نہیں۔ (ابوداؤد)
پتہ چلا کہ قرآن کو سمجھنا باقاعدہ تلاوت کا مقصود ہے۔ جو ہمارے یہاں قرآن کی زبان سے ناواقف لوگ تلاوت سے حاصل نہیں کرپاتے اور فہم قرآن سے حاصل ہونے والی بھلائیوں سے بھی محروم رہ جاتے ہیں۔مساجد میں طاق راتوں میں ہونے والے دروس اسی خلاء کوپر کرتے ہیں، لہذا رات میں قیام اللیل اور تلاوت کے ساتھ آدھا ایک گھنٹہ اگر قرآن کے معانی کو سمجھنے میں دے دیے جائیں تو یہ بدعت کیسے ہوگئی جب کی اس کی اصل نصوص میں موجود ہے؟
یعنی ان دروس سے روکنے والے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ لوگوں پر واجب ہے کہ وہ پوری رات قرآن بغیر سمجھے ہی پڑھیں ، اگر تھوڑا وقت آپ نےقرآن سمجھنے میں دے دیا تو گنہگار ہوجائیں گے؟ یہ بات اتنی اتنی نامعقول ہے کہ اس کا رد کرنے کی بھی ضرورت نہیں ۔
اسی لیے عرب علماء کے فتوے ہندوپاک کے ماحول پر چسپاں کرنا۔ درست نہیں کیونکہ وہاں لوگ قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے اس کے معانی کو سمجھ رہے ہوتے ہیں اور اس کااثر اپنی نفس پر محسوس کر رہے ہوتے ہیں، ہمارے یہاں لوگوں کی تلاوت میں یہ چیز مفقود ہوتی ہےجس کی کچھ بھرپائی ان مختصر دروس سے ہوجاتی ہے ۔
اور ویسے بھی قران کے دروس اور ذکرکی مجلسوں میں شرکت اپنے آپ میں ایک عظیم عبادت ہے ، بالخصوص مساجدمیں ہونے والے دروس قرآن کی شرکت کی خصوصی فضیلت احادیث میں وارد ہوئی ہے کہ ان مجلسوں پر اللہ کی طرف سے سکینت نازل ہوتی ہے ، اللہ کی رحمت ان مجلسوں میں شرکت کرنے والوں کو ڈھانپ لیتی ہے ، فرشتے ان کو گھیر لیتے ہیں اور اللہ اپنے ان بندوں کا ذکر اپنے مقرب فرشتوں سے کرتا ہے ۔ تو مساجد میں قرآن کے دروس کا اہتمام اپنے آپ میں ایک بابرکت اور فضائل سے بھرپوری عمل اور ایک عظیم عبادت ہے ۔
اور رمضان کی راتوں میں اس عبادت کی ادائیگی بھی ان شـــــــاء اللـــــــہ باعث ثواب ہوگی۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

سرفراز فیضی